کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 46
باپ کی ملکیت نہیں ۔
دوسرا قول
باپ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے بیٹے کے مال میں سے جب چاہے جتنا چاہے لے لے اور اپنی ملکیت بنا لے، خواہ باپ کو اس کی ضرورت ہو یا نہ ہو، بیٹا چھوٹا ہو یا بڑا، بیٹی ہو یا بیٹا، وہ مال دینے پرخوش ہو یا ناخوش، بیٹے کو باپ کے مال لینے کا علم ہو یا نہ ہو۔
قائلین: یہ قول صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت سے مروی ہے جن میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ، علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ، جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ، انس بن مالک رضی اللہ عنہ ، ابن عباس رضی اللہ عنہ اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا شامل ہیں ۔
فقہاے تابعین مشروق بن اَجدع رحمہ اللہ ، سعید بن مسیب، ایک قول میں ابراہیم نخعی رحمہ اللہ ، عامر شعبی رحمہ اللہ ، ایک قول میں مجاہد رحمہ اللہ ، حسن بصری رحمہ اللہ ، حکم بن عتیبہ رحمہ اللہ اور قتادہ بن دعامہ سدوسی سے بھی یہی موقف مروی ہے۔ فقہاے تبع تابعین میں سے ابن ابی لیلیٰ اور محمد بن عبدالرحمن کا بھی یہی قول ہے اور متاخرین میں سے امام صنعانی رحمہ اللہ نے حدیث ((أنت ومالک لأبیک)) سے استدلال کرتے ہوئے اسی قول کی تائید کی ہے۔
دلائل :اس قول کے قائلین کی دلیل درج ذیل احادیث وآثار ہیں :
1. امام ابن حزم رحمہ اللہ اپنی سند کے ساتھ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ان کے پاس ایک باپ بیٹا آئے، بیٹا اپنے باپ سے ایک ہزار درہم کا مطالبہ کررہا تھا جو اس نے اپنے باپ کو بطورِ قرض دیے ہوئے تھے جبکہ باپ کہہ رہا تھا کہ وہ قرض واپس کرنے کی قدرت نہیں رکھتا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بیٹے کا ہاتھ پکڑا اور باپ کے ہاتھ میں دے دیا اور فرمایا: ’’یہ بیٹا اور اس کا مال اللہ تعالیٰ کی طرف سے تجھے عطیہ ہے۔‘‘
(المُحلّٰی:۸/۱۰۴، مصنف ابن ابی شیبہ: ۷/۱۵۷،۱۵۸)
2. امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح منقول ہے کہ اُنہوں نے بیٹے کا مال والد کو دینے کا فیصلہ دیا۔ (المُحلّٰی:۸/۱۰۴، ومصنف ابن ابی شیبہ:۷/۱۵۸،۱۵۹)