کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 45
سے ثابت ہوا کہ بیٹے کے مال کا حکم باپ کے مال کے حکم سے مختلف ہے۔ (شرح معانی الآثار:۴/۱۵۹) 3. اجماعِ اُمت امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نصوص اور اجماع سے یہ صحیح ثابت ہوچکا ہے کہ اگر کسی آدمی کے پاس غلام اور باندی ہو اور ان دونوں کا والد بھی زندہ ہو تو وہ غلام اور لونڈی اپنے مالک کی ملکیت ہیں ، اپنے باپ کی نہیں ۔ (المُحلّٰی:۸/۱۰۷) 4. متفق علیہ اُصول تمام اہل علم کے نزدیک متفق علیہ اُصول ہے کہ ہر انسان کے مال کی حفاظت کی جائے اور کسی دوسرے شخص کو اس کے مال میں شریک نہ کیا جائے اور اس کے مال پر کسی غیر کی ملکیت دلیل قطعی کے بغیر ثابت نہ ہوگی اور ایسی کوئی دلیل موجود نہیں ہے کہ جس کی بنیاد پر ہم بیٹے کے مال کو باپ کی ملکیت قرا ر دے دیں ۔ 5. عقلی دلائل اس قول کی تائید میں عقلی دلائل سے بھی استدلال کیا گیا ہے جن میں سے ایک قول امام سرخسی رحمہ اللہ کا ہے، فرماتے ہیں : بیٹے کے مال میں باپ کی ملکیت نہیں ہے، کیونکہ کمائی، کمانے والے کے کام کرنے کے نتیجے میں اس کی ملکیت بنتی ہے۔ جس طرح باپ اپنے بیٹے کا مالک نہیں ہے، اسی طرح بیٹے کی کمائی کا بھی مالک نہیں ہے۔ کیونکہ بیٹا ہی اپنی کمائی کا حقیقی مالک ہے۔ حتیٰ کہ اپنے مال میں تصرف کا اختیار صرف بیٹے کو حاصل ہے کہ وہ اپنی لونڈی سے مباشرت کرے یا اپنا غلام آزاد کردے۔ بچپن میں والد نگران ہونے کی حیثیت سے بیٹے کے مال میں تصرف کرتا رہتا ہے مگر بیٹے کی بلوغت کے بعد یہ سبب زائل ہوجاتا ہے، اب وہ خود اپنے مال میں تصرف کا زیادہ حقدار ہے۔ اگر بیٹے کا مال باپ کی ملکیت ہے، تو باپ جب اپنے بیٹے کو ہبہ وغیرہ کرتا ہے تو اس کا مطلب ہوگا کہ وہ خود اپنی ذات کو ہی ہبہ کررہا ہے۔ حالانکہ یہ فضول بات ہے جس کا اہل علم میں سے کوئی بھی قائل نہیں ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بیٹے کا مال اسی کی ملکیت ہے،