کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 44
لئے، سوائے حقوقِ واجبہ کے، اپنے بیٹوں کے اَبدان حرام ہیں ، اسی طرح اَموال بھی حرام ہیں سوائے حقوقِ واجبہ کے، اور حقوقِ واجبہ سے مراد اس کی نفقہ کی ضروریات ہیں ۔ 2. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لا یحل مال امرئ مسلم إلا بطیب نفس منہ)) (مسند احمد:۵/۷۲، سنن دارقطنی:۳/۲۶، سنن بیہقی:۶/۱۰۰) ’’کسی مسلمان آدمی کا مال اس کی رضا مندی کے بغیر استعمال کرنا حلال نہیں ہے۔‘‘ اس حدیث کا عموم بھی اس امر پر دلالت کررہا ہے کہ باپ پراپنے بیٹے کے مال کو استعمال کرنا حرام ہے، کیونکہ اس حدیث میں والد سمیت کسی کو مستثنیٰ نہیں کیا گیا۔ 3. امام بیہقی اپنے استدلال کے لیے ایک مرسل روایت بھی لائے ہیں جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((کل أحد أحق بمالہ من والدہ وولدہ والناس أجمعین)) (السنن الکبریٰ از امام بیہقی: ۷/۴۸۱، سنن دارقطنی: ۴/۲۳۶) ’’ہر شخص اپنے مال کا ، اپنے والد، اپنے بیٹے اور تمام لوگوں سے زیادہ حقدار ہے۔‘‘ یہ حدیث اپنے مدلول پر واضح اور نص صریح ہے۔ 4. سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو کہا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں یوم الاضحی کو اس اُمت کے لئے عید کا دن بنا دوں ۔ اس آدمی نے کہا: آپ کی کیا رائے ہے کہ اگر میں اپنے بیٹے کے مَنِـیحۃ (ایسا بالغ جانور ہے جو دودھ دوہنے کے لئے کسی کو مخصوص مدت کے بعد واپس کرنے کی شرط پر دیا گیا ہو) کے علاوہ کوئی جانور نہ حاصل کرسکوں تو کیا اس کو قربان کردوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں (وہ جانور مت قربان کر) لیکن تو اپنے بالوں ، ناخنوں اور مونچھوں کوکاٹ لے اور اپنے زیرناف بالوں کو مونڈ لے، اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہی تیری مکمل قربانی ہے۔‘‘ (سنن نسائی:۴۳۶۵، سنن ابوداؤد:۲۷۸۹، مسند احمد:۲/۱۶۹، مستدرک حاکم:۴/۲۲۳، وقال صحیح الاسناد ولم یخرجاہ ووافقہ الذہبی) امام طحاوی فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو اپنے بیٹے کا مَنیحۃ ذبح کرنے سے منع کردیا اور اس کو اپنے ذاتی مال سے قربانی کرنے کا حکم دیا اور اس کی ترغیب دی تو اس