کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 43
کیاجائے۔ (مشکل الآثار:۴/۲۷۷)
5. اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَلَا تَاکُلُوْا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ﴾ (البقرۃ:۱۸۸)
’’اور آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھاؤ۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا:
﴿یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ أمَنُوْا لَا تَاکُلُوْا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ﴾ (النساء :۲۹)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھاؤ۔‘‘
مذکورہ دونوں آیتیں اور اس معنی کی دیگر آیات ِکریمہ جو کسی دوسرے کا مال باطل طریقے سے کھانے کی حرمت پر دلالت کرتی ہیں ، ان کا مدلول ومفہوم عام ہے جس میں عام انسانوں کے ساتھ باپ بھی شامل ہے ، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ باپ پر اپنے بیٹے کامال کھانا اور اسے اپنی ملکیت بنالینا حرام ہے اِلا یہ کہ بیٹا از خود رضا مندی سے دے دے۔ (سنن بیہقی :۷/۴۸۱)
تنبیہ : یاد رہے کہ یہ عموم، اجماعِ امت کے ساتھ خاص ہوچکا ہے کہ والد فقط اپنی ضرورت کے مطابق اپنے بیٹے کے مال میں سے لے سکتا ہے، خواہ بیٹا راضی نہ بھی ہو۔ اس لئے اس عموم سے استدلال کرتے ہوئے باپ کے لئے بہ قدر ضرورت بیٹے کے مال سے لینا حرام نہیں ۔
2. سنت ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے دلائل
1. سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((إن دماء کم وأموالکم وأعراضکم علیکم حرام کحرمۃ یومکم ھذا، في بلدکم ھذا، في شھرکم ھذا)) (صحیح بخاری:۱۷۳۹، صحیح مسلم:۲۱۵۹)
’’بے شک تمہارے خون اور تمہارے مال اور تمہاری عزت و آبرو، تمہارے اس دن اور اس شہر اور اس مہینے کی حرمت کی طرح، تمہارے درمیان حرام ہیں ۔‘‘
امام طحاوی رحمہ اللہ اس حدیث کے عموم سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤمنوں کے اَموال کو ایسے ہی حرام قراردیا ہے جس طرح ان کے خونوں کو حرام کیا گیاہے، اور اس حرمت میں سے والد سمیت کسی کو بھی مستثنیٰ نہیں کیا گیا۔ (شرح معانی الآثار:۴/ ۱۵۹)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حرمت ِاَموال کو حرمت ِاَبدان کی مانند قرار دیا ہے۔ جس طرح باپ کے