کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 42
﴿وَلِابَوَیْہِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا السُّدُسُ مِمَّـا تَرَکَ اِنْ کَانَ لَــــہُ وَلَدٌ فَاِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّہُ وَلَدٌ وَّوَرِثَہُ اَبَوَاہُ فَلِأمَّہِ الثُّلُثُ﴾ (النساء:۱۱) ’’اگر میت صاحب ِاولاد ہو تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملنا چاہئے اور اگر وہ صاحب ِاولاد نہ ہو اور والدین ہی اسکے وارث ہوں تو ماں کو تیسرا حصہ دیا جائے گا۔‘‘ ٭ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’جب اللہ تعالیٰ نے باپ کو بیٹے کی میراث میں سے دیگر ورثا کی مانند ایک مقرر حصہ دیا ہے تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بیٹا بلا شرکت غیرے اپنے مال کا خود مالک ہے۔‘‘ (الرسالہ: ص۴۶۸) ٭ امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ نے بیٹے کی موت پر ماں کو مقرر حصہ دیا ہے، اور یہ امر محال ہے کہ بیٹے کی موت پر ماں کو بیٹے کی بجائے باپ کے مال میں سے مقرر حصہ دیا جائے۔‘‘ (مشکل الآثار:۴/۲۷۷) ٭ اس آیت ِکریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ بیٹے کی موت پر باپ کو چھٹا حصہ دیا جائے گا، اور اگر باپ ہی اپنے بیٹے کے کل مال کا مالک ہوتا تو اس کو چھٹا حصہ ملنے کی بجائے سارا مال ملنا چاہئے تھا۔ (سنن بیہقی:۷/۴۸۱؛ فتح القدیر ازامام ابن ہمام رحمہ اللہ :۴/۲۲۳) ٭ امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے میت کے مال میں والدین، خاوند، بیوی، بیٹے اور بیٹیوں سمیت تمام ورثا کے حصے مقرر کردیئے ہیں ۔ اگر بیٹے کا مال والد کی ملکیت ہوتا تو مذکورہ تمام ورثا محروم ہوجاتے، کیونکہ وہ ایک زندہ انسان (والد) کا مال ہوتا۔ (المُحلّٰی: ۸/۱۰۶؛ الکاشف عن حقائق السنن شرح مشکوٰۃ المصابیح از امام طیبی رحمہ اللہ : ۶/ ۱۹ ) 4. اللہ تعالیٰ آیت ِوراثت میں فرماتے ہیں : ﴿مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصَی بِھَا أوْ دَیْنٍ﴾ (النساء :۱۱) ’’(یہ سب حصے اس وقت نکالے جائیں گے) جبکہ میت کی وصیت کو پورا کردیا جائے اور اس کے ذمے قرض کو ادا کردیاجائے۔‘‘ اس آیت ِکریمہ میں اللہ تعالیٰ اس امر کی وضاحت کررہے ہیں کہ میت کے ترکہ کی تقسیم، اس کی وصیت کو پورا کرنے اور اس پر قرض کو ادا کرنے کے بعد کی جائی گی۔ یہ محال امر ہے کہ باپ کے مال سے بیٹے (میت) کی وصیت کو پورا کیا جائے اور اس بنا پر اس کے قرض کو ادا