کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 41
’’غنی شخص پر واجب ہے کہ وہ اپنے محتاج والدین کے کھانے اور پہننے اوڑھنے وغیرہ پر اتنا خرچ کرے جتنا اپنے اوپر خرچ کرتا ہے۔‘‘ (تفسیر قرطبی:۳/۱۷)
مذکورہ آیت ِکریمہ مال پر بیٹے کی ملکیت کو ثابت کرتی ہے اور والدین کو اللہ تعالیٰ نے مصارف ِانفاق میں ذکر کیا ہے۔ لہٰذا باپ کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے بیٹے کے مال کو اپنی ملکیت بنا لے۔ اگر بیٹے کا مال باپ کا ہی ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس آیت میں والدین کو مصارفِ انفاق میں ذکر نہ کرتے اور اگر بیٹا اپنے کماے ہوئے مال کا مالک نہ ہوتا تو اس پراپنے والدین کا نفقہ ثابت نہ ہوتا جبکہ پیچھے فقہاے کرام کا اتفاق گذر چکا ہے کہ ضرورت مند والدین کا نفقہ بیٹے کے ذمہ واجب ہے۔ (المُحلّٰی:۸/۱۰۷ ؛ مشکل الآثار للطحاوي ۴/۲۷۷)
2. اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِفُرُوْجِھِمْ حٰفِظُوْنَ ٭ اِلَّا عَلیٰ أَزْوَاجِھِمْ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُھُمْ فَاِنَّھُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ ٭ فَمَنِ ابْتَغیٰ وَرَائَ ذَلِکَ فَاُوْلٰئِکَ ہُمُ الْعَادُوْنَ﴾ (المعارج:۲۹،۳۱)
’’جواپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں بجز اپنی بیویوں یا اپنی مملوکہ عورتوں کے جن سے محفوظ نہ رکھنے میں ان پر کوئی ملامت نہیں ۔ البتہ جو اس کے علاوہ کچھ چاہیں وہی حد سے تجاوز کرنے والے ہیں ۔‘‘
امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مذکورہ آیت ِکریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ لونڈی کامالک اپنی لونڈی کے ساتھ مباشرت کرسکتا ہے جبکہ غیر مالک پر لونڈی کے ساتھ مباشرت کرنا حرام ہے اور اس آیت ِکریمہ کے حکم میں دونوں طرح کے بیٹے آجاتے ہیں :ایک وہ بیٹا ہے جس کا والد زندہ ہو اور دوسرا وہ بیٹا جس کا والد زندہ نہ ہو۔ اس سے ثابت ہوا کہ بیٹے کا مال بیٹے کا اپنا ذاتی ہے، والدین کا نہیں ہے۔ اگر بیٹے کا مال باپ کی ملکیت ہوتا تو جس بیٹے کا والد زندہ ہے اس کے لئے اپنی لونڈی کے ساتھ مباشرت کرنا حرام ہوتا،کیونکہ حقیقتاً وہ لونڈی اس کے باپ کی ملکیت ہوتی جبکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنی لونڈی کے ساتھ مباشرت کی اجازت بیٹے کی ملکیت کو ثابت کرتی ہے۔ (المُحلّٰی:۸/۱۰۷ ؛ مُشکل الآثار للطحاوي:۴/۲۷۷)
3. اللہ تعالیٰ آیت ِوراثت میں فرماتے ہیں :