کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 40
حصہ اوّل: فقہاء کرام کے اقوال اور ان کے دلائل
اس مسئلہ میں فقہاے کرام اور اہل علم کے تین اقوال ہیں :
پہلا قول
باپ کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ضروری نفقہ کے سوا اپنے بیٹے کے مال میں سے کچھ حصہ لے ، اور وہ اس وقت جب وہ اس کا ضرورت مند ہو۔ بیٹے کا مال اُسی کی اپنی ملکیت ہے اور باپ کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنی ضرورت سے زیادہ اس کے مال میں سے کچھ لے، تاہم بیٹا اپنی رضامندی سے دے دیتا ہے تومضائقہ نہیں ہے۔
قائلین : یہ قول جمہور اہل علم اور حنفیہ، مالکیہ اور شافعیہ میں سے اکثر فقہاے کرام کا ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ سے بھی اس قول کی ایک روایت منقول ہے جبکہ حنابلہ میں سے ابوالوفاء ابن عقیل رضی اللہ عنہ کا بھی یہی قول ہے۔
صحابہ وتابعین میں سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا یہی قول ہے اور کبار فقہاے تابعین، شریح القاضی، جابر بن زید، محمد بن سیرین، حماد بن ابی سلیمان اور زہری رحمہم اللہ کا بھی یہ قول ہے جبکہ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ اور مجاہد رحمہ اللہ سے ایک ایک روایت مروی ہے۔
اس قول کے قرآن، سنت، اجماع، اور عقل وفہم سے دلائل بالترتیب حسب ِذیل ہیں :
1. قرآن مجید سے دلائل :
1. اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ قُلْ مَا اَنْفَقْتُمْ مِنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَالأَقْرَبِیْنَ وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اﷲَ بِہٖ عَلِیْمٌ﴾ (البقرۃ: ۲۱۵)
’’لوگ پوچھتے ہیں کہ ہم کیا خرچ کریں ؟ جواب دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر، رشتے داروں پر، یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو اور جو بھلائی بھی تم کرو گے، اللہ اس سے باخبر ہوگا۔‘‘
امام قرطبی رحمہ اللہ اس آیت ِکریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں :