کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 4
کی بازگشت ہے کہ ’’ تہذیب وتمدن کے موجودہ دور میں ایسی سزائیں وحشیانہ ، ظالمانہ اور انسانی عزو شرف کے منافی ہیں ۔ ایک انسان مر گیا لیکن اس کے بدلے ایک جیتے جاگتے انسان کو جینے کے حق سے محروم کردینا انسانیت کی توہین ہے۔اس موقف کے علم برداروں کی یہ جدوجہدہے کہ دنیا بھر کے دساتیر سے سزاے موت کے قانون کو نکال کر اسے منسوخ وکالعدم کردیا جائے تاکہ معاشرے میں متحارب فریقوں کے انتقامی جذبات کو ٹھنڈا کرکے امن وآشتی اور مصالحت ومفاہمت کا ماحول پیدا کرنے میں مدد مل سکے۔‘‘ ’سزائے موت کے خاتمے‘ کے پس پردہ مغرب کے ’خود ساختہ انسانی حقوق‘ کی تنظیمیں ، یورپی یونین کے ممالک اور خود اقوامِ متحدہ ہے جس کی جنرل اسمبلی کی ایک قرار داد کہ سزاے موت کو دنیا بھر سے ختم ہونا چاہئے،پر گذشتہ سال رکن ممالک کی اکثریت نے دستخط کئے تھے۔ کئی سالوں سے مختلف ممالک میں اس سزا کے خاتمے کے لئے مغربی ادارے کانفرنسیں اور سیمینارز منعقد کرا رہے ہیں اور گذشتہ برس ۱۰/اکتوبر۲۰۰۷ء کو اقوامِ متحدہ کی طرف سے عالمی سطح پر سزاے موت کے خاتمے کے دن کے طورپر بھی منایا گیا ہے۔ جماعت ِاسلامی کے نائب امیر سید منور حسن نے سزاے موت کی تبدیلی پر اپنے ایک مذمتی بیان میں یہ قرار دیا ہے کہ’’اس سزا کے خاتمے سے دراصل توہین رسالت جیسے سنگین جرم کی سزا کو معطل کیا جانا مقصود ہے۔ اور حکمران طبقہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ناراض کرکے مغربی آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتا ہے۔‘‘ (روزنامہ جنگ: ۵/جولائی ۲۰۰۸ء) قانونِ سزاے موت کے سلسلے میں عملی صورتحال یہ ہے کہ فی الوقت دنیا کے ۹۰ ممالک میں موت کی سزا ختم کی جاچکی ہے جبکہ ۶۶ کے قریب ممالک میں تاحال یہ سزا برقرار ہے جن میں امریکہ اور چین سرفہرست ہیں ۔ عراقی حکومت نے بھی سزاے موت کو تبدیل کردیا تھا لیکن طرفہ تماشا دیکھئے کہ صدام حسین کی پھانسی سے چند روز قبل سزاے موت کے قانون کا دوبارہ اِجرا کیا گیا اور بعد میں پھر اس کو معطل کردیا گیا۔ اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے ’ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ کے مطابق ’’گذشتہ سالچین میں سزاے موت کے سب سے زیادہ یعنی ۸ ہزار واقعات رونما ہوئے ہیں ۔ اور اس وقت پانچ