کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 39
آدمی خود توعیش و عشرت کی زندگی گزار رہا ہو جبکہ اس کے والدین تنگ دستی اور فقر و فاقے کی زندگی بسر کررہے ہوں ۔
والدین پر خرچ کرنے کے ساتھ ساتھ بیٹے پر یہ بھی واجب ہے کہ وہ والدین پر خرچ کرنے کے عمل کو احسان نہ سمجھے بلکہ یہ اس پر قرض ہے جو اس کے والدین نے اس پر خرچ کیا تھا اور ان بے شمار احسانات کا بدلہ ہے جو والدین نے بچپن میں اس پر کئے تھے، جیسا کہ قرآن کریم کی مذکورہ آیات میں واضح طور پر بیان ہوا ہے اوربیٹے کو ہردم یاد رکھنا چاہئے کہ اپنے والدین کی من جملہ نیکیوں میں سے ایک نیکی وہ خود ہے اور والدین ہی اس کے حصول اور دنیا میں آنے کا ظاہری سبب ہیں ۔
مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں متعدد لوگوں کے ذہنوں میں ایک سوال پیدا ہوا کہ کیا باپ جب چاہے، زبردستی اپنے بیٹے کا مال لے سکتا ہے؟ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ مبارک ہے: ((أنت و مالک لأبیک))’’ تو اور تیرا مال تیرے باپ کے لئے ہے۔ ‘‘اور کیا مطلقاً باپ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی اولاد کے مال پر قبضہ کرلے، خواہ باپ غنی ہو یا فقیر، محتاج ہو یا غیر محتاج، اور بیٹا چھوٹا ہو یا بڑا، وہ یہ مال لینے سے راضی ہو یا ناراض اور والد کااپنے بیٹے کا مال حاصل کرنا بیٹے کے علم میں ہو یا نہیں ؟
علاوہ ازیں جب باپ محتاج ہو تو کیا وہ اپنی ضرورت کے مطابق ہی لے سکتا ہے یا جتنا اس کی مرضی چاہے، وہ لے لے؟ اور کیا ماں اور دادا کو بھی باپ کی مانند یہ حق حاصل ہے یا یہ اختیار صرف باپ کو ہی حاصل ہے؟
میرے پاس اس قسم کے متعدد سوالات آئے جنہوں نے مجھے اس مختلف فیہ مسئلہ پر ایک تحقیقی بحث لکھنے پر مجبور کردیا، لہٰذا میں نے اس مسئلہ میں اہل علم و فقہا کے اَقوال وآرا کو دلائل، اعتراضات و جوابات اور تبصرہ و تجزیہ کے ساتھ قلم بند کردیا ہے۔یہ بحث تین حصوں اور ثمرہ ونتیجہ میں ترتیب شدہ ہے۔ میری اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مجھے صحیح اور درست طریقے پر دین حنیف کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے، مجھے اِخلاص کی نعمت سے نوازے اور مجھ سمیت ہم سب کو ’ہمارے والدین‘، ہمارے اساتذہ، ہمارے اہل و عیال اور ہمارے مسلمان بھائیوں کو اجر ِعظیم سے نوازے۔ وصلی اﷲ علیٰ سیدنا محمد وعلی آلہ و صحبہٖ وسلم اجمعین