کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 38
٭ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ ربّ کی رضا والد کی رضا میں ہے، اور ربّ کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ۔‘‘ (جامع ترمذی:۱۸۹۹) اسی معنی کی متعدد آیاتِ کریمہ اور احادیث ِمبارکہ موجود ہیں ، جن میں والدین کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ برّ الوالدین’’والدین کے ساتھ نیکی کرنا‘‘ ایک جامع کلمہ ہے جو ہر قسم کی خیر اور پسندیدہ فعل کو اپنے اندر سموے ہوئے ہے۔ یعنی والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا، ان کی زیارت کرنا، ان کا احترام کرنا، ان کے ساتھ ادب سے پیش آنا، ان کے لئے اپنا مال خرچ کرنا، ان کے حقوق کا خیال رکھنا، ان کے پسندیدہ امور کو بجا لانا اور ان کی ناپسندیدگی سے بچنا، نافرمانی نہ کرنا اور ان کو اپنے کسی قول وفعل سے اذیت نہ دینا۔ وغیرہ (تعریف’برالوالدین‘دیکھئے: مشارق الأنوار للقاضي: ۱/۸۴، ۲/۱۰۰؛ فتح الباري:۱۰/۴۰۶؛ تحریر ألفاظ التنبیہ للنووي، ص۱۴۹) ’بر الوالدین‘ کا راستہ جنت کو لے جانے والا بہترین راستہ ہے اور دنیا و آخرت کی سعادت کا دروازہ ہے۔ والدین کے حقوق میں سے سب سے بڑا حق بڑھاپے میں ان پر خرچ کرنا ہے، بیٹا خواہ مال دار ہو یا تنگ دست، اگرچہ والدین کا مذہب مختلف ہی کیوں نہ ہو۔[1] یہ بھی یاد رہے کہ والدین کا نفقہ بیٹے پر واجب ہے، خواہ والدین دائمی مریض ہوں جو کمائی کرنے سے عاجز ہوں یا صحت مند ہوں اور کمائی کرسکتے ہوں ۔برخلاف شوافع کے جن کے نزدیک طاقت مند اور کمانے کی قدرت رکھنے والے باپ پر خرچ کرنا بیٹے کے لئے ضروری نہیں ۔ جب یہ ثابت ہوگیا ہے کہ والدین کا نفقہ بیٹے پر واجب ہے تو اس مسئلہ میں اصل حکم یہ ہے کہ یہ نفقہ معروف طریقے سے واجب ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے۔ البتہ نیکی اور احسان یہی ہے کہ والدین پر اچھے طریقے سے خرچ کیاجائے اور آدمی جو چیز اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لئے پسند کرتا ہے، وہی چیز بلکہ اس سے بہتر اپنے والدین کے لئے پسند کرے۔ یہ رویہ مناسب ومعروف طریقہ نہیں کہلا سکتا کہ
[1] اس مسئلہ پر مذاہب اربعہ کا موقف جاننے کے لئے دیکھیں: شرح السنۃ للبغوي: ۹؍۳۲۹، شرح أدب القاضي للخصاف، للصدر الشہید ۴؍۳۱۷ ـ ۳۳۳، المبسوط للسرخسي ۵؍۲۲۲، تبیین الحقائق ۳؍۶۴، بدائع الصنائع ۴؍۳۰ وغیرہ