کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 37
کے انتہائی نازک اور کثیر الجہت ہونے کے باوجود فاضل محقق نے بڑے سلجھے اور واضح علمی اُسلوب میں پیش نظر مسئلہ کی تحقیق سے پورا اِنصاف کیا ہے۔ مجلس التحقیق الاسلامی کے ریسرچ سکالرقاری مصطفی راسخ کے اُردو ترجمہ میں بھی بڑی سلاست اور روانی موجود ہے۔ اس مضمون کی دوسری اور آخری قسط میں ان آراء پر تجزیہ و تبصرہ کے بعد محدث کے قارئین ایک واضح موقف تک ضرور پہنچ جائیں گے۔ ان شاء اللہ (حسن مدنی)
حمد وثنا کے بعد … ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُھُمَآ اَوْ کِلٰھُمَا فَلَا تَقُلْ لَّھُمَآ اُفٍّ وَّ لَا تَنْھَرْ ھُمَا وَ قُلْ لَّھُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا٭ وَ اخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا ٭ رَبُّکُمْ اَعْلَمُ بِمَا فِیْ نُفُوْسِکُمْ اِنْ تَکُوْنُوْا صٰلِحِیْنَ فَاِنَّہٗ کَانَ لِلْاَوَّابِیْنَ غَفُوْرًا﴾ (بنی اسرائیل:۲۳ تا۲۵)
’’تیرے ربّ نے فیصلہ کردیا کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ اگر تمہاری موجودگی میں ان میں سے کوئی ایک، یا دونوں ، کبرسنی کو پہنچ جائیں تو انہیں اُف تک نہ کہو، نہ اُنہیں جھڑک کر جواب دو بلکہ ان کے ساتھ احترام سے بات کرو اور نرمی اور رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو۔ اور دعا کیا کرو کہ ’’پروردگار! ان پر رحم فرما جس طرح اُنہوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا۔ تمہارا ربّ خوب جانتا ہے کہ تمہارے دلوں میں کیاہے۔ اگر تم صالح بن کر رہو تو وہ ایسے سب لوگوں کے لئے درگزر کرنے والا ہے جو اپنے قصور پر متنبہ ہوکر بندگی کے رویے کی طرف پلٹ آئیں ۔‘‘
٭ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ’’ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: رسولِ کریمؐ! میرے حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیری ماں ، اس نے پوچھا: پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیری ماں ، اس نے پوچھا: پھر کون ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیری ماں ، اس نے پوچھا: پھر کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر تیرا باپ۔ ‘‘ (صحیح بخاری:۵۹۷۱)
٭ سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’والد جنت کے دروازوں میں سے درمیان والا دروازہ ہے، اگر تو چاہے تو اس دروازے کو ضائع کردے اور اگر چاہے تواسے محفوظ کرلے۔‘‘ (جامع ترمذی:۱۹۰۰)