کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 35
پاکستان کے مستقبل اور کوالٹی کی تعلیم حاصل کرنے والے شہریوں کی اولادوں کو افتراق، انتشار، فرقہ وارانہ بحثوں میں اُلجھانے کا اختیار کس نے دیا ہے؟ کیا یہ ریاست در ریاست نہیں ہے کہ جس پر حکومت ِ پاکستان یا ریاست ِ پاکستان کو کوئی قدرتِ کلام نہیں ہے اور کوئی قوتِ نافذہ تک حاصل نہیں ہے؟ صرف اسی ایک بات سے مسئلے کی نزاکت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے کم و بیش ہر بڑے شہر اور ہربڑے قصبے میں ’او/ اے لیول‘ کے اسکول قائم ہیں اور امتحان کے نام پر ہزاروں روپے، جو آخرکار قومی سطح پر اربوں میں ڈھل کر برطانیہ عظمیٰ کی چوکھٹ پر پیش کیے جاتے ہیں ۔ لیکن گذشتہ پانچ برسوں کے دوران ہم نے سینٹ اور قومی اسمبلی کے فلور پر اس نظام کے تحت امتحان دینے والے بچوں کی رجسٹرڈ تعداد دریافت کرنے کے لیے سوال بھیجے اور یہ بھی پوچھا کہ رجسٹریشن اور امتحان کے لیے سال بہ سال کتنی فیس بیرونِ ملک روانہ کی جاتی ہے، مگر ان دونوں سوالوں کا جواب وزارتِ تعلیم، وزارتِ خزانہ، وزارتِ داخلہ وغیرہ کسی نے بھی نہیں دیا۔ ان سبھی وزارتوں نے ایک سطری جواب میں ٹرخا دیا: ’’اعداد وشمار نہیں ۔‘‘ یا پھر یہ کہ ’’یہ سوال ہم سے متعلق نہیں ۔‘‘ حیرت کی بات ہے کہ اکثر حکمرانوں کے بچے انہی اداروں میں پڑھتے ہیں ، مگر وہ ان کے بارے میں معلومات مہیا کرنے سے قاصر ہیں ۔ ان کے برعکس مسجد مکتب کا ذکر آجائے تو داخلہ، خارجہ، اوقاف اور تعلیم کی وزارتوں کے ایوان دہل جاتے ہیں اور ایجنسیاں مل کر دس دس فہرستیں تیار کرلیتی ہیں ، لیکن دوسری جانب ایک غیرملکی امتحانی نظام من مانی کرنے، من پسند فیس جمع کرنے، من بھاتے نصاب پڑھانے کے لیے آزاد، خودمختار اور طاقت کی علامت ہے، اور کالے انگریزوں کے لیے سٹیٹس سمبل ہے __مگر اس کے متعلقین و متاثرین کے بارے میں ریاست کے پاس چند سطروں کی معلومات بھی موجود نہیں ہیں ۔ محدث کے مضامین پر تبصرہ اور مضمون بھیجنے کے لئے مدیر محدث کے موبائل فون پر رابطہ کریں ، اگر ترسیل کی کوئی شکایت درپیش ہو تو اسی موبائل پر SMS پر اکتفا کریں ۔