کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 34
وارانہ ہم آہنگی اور تاریخ کے درست زاویۂ نظر اور منصفانہ بحث و تمحیص کے معاملات پر تو ہم اس تجزیے میں بات ہی نہیں کررہے۔ یاد رہے کہ یہ نصاب مشرف خیالی کے اس ایجنڈے کی تائید میں پیش کیا جا رہا ہے کہ ہمیں عقیدے اور تاریخ سے کچھ غرض نہیں ، ہم تو طالب علموں کو زندگی کے معاملات میں اسلام کے احکام اور قوانین سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں ۔
کتاب مجموعی طور پر آسان، عام فہم اور مؤثر اُسلوبِ بیان میں پیش کی گئی ہے، جس کے لیے مصنفہ ستائش کی مستحق ہیں ، لیکن اُنہوں نے کون سی نصابی اسکیم پیش نظر رکھی، یہ معلوم نہیں ہورہا۔ وہ طالب علم کے سامنے اسلام کی کیا تصویر اور کون سا پیغام پیش کرنا چاہتی ہیں ؟ طالب ِعلم، اُستاد اور والدین، تینوں اس سے بے خبر ہیں اور پریشان بھی؟ وہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے بلند بانگ دعوے کو کس طرح نصابی عمل میں ڈھال رہی ہیں ، اس چیز کا کوئی آغاز اور انجام موجود نہیں ہے۔ کیا نصاب تیار کرانے والوں کا ہدف یہ تو نہیں ہے کہ اسلامیات کی ایسی کتاب فرقہ واریت کو پروان چڑھانے کے جرم میں کچھ اس طرح متنازع بن جائے کہ سرے سے اسلامیات کی تدریس کو، جی سی ای یا ’او لیول‘، ’اے لیول‘ سے خارج کرنے کا رستہ کھل جائے، اور اس کے بجاے ’آفاقی اخلاقیات‘ جیسا نام نہاد مضمون، بطورِ متبادل لانے کا جواز مل جائے۔ ہمارے اس خدشے کی ٹھوس بنیادیں موجودہیں ۔ دشمن ان معاملات میں ’علاج بالمثل‘ کا راستہ اختیار کرتا اور مقصد اپنا حاصل کرتا ہے۔ پاکستان میں جب بھی انگریزی کی عظمت کی دھاک بٹھانا مقصود ہوتی ہے تو اہل حل و عقد صوبائی زبانوں کی ترویج کا شوشا اُٹھاتے اور انھیں اُردو سے لڑانے کا راستہ اختیار کرتے ہیں اور پھر خود ہی فیصلہ سنا دیتے ہیں ، کہ اچھا ان میں جھگڑا ہے، اس لیے مناسب یہی ہے کہ انگریزی کا سکّہ چلایا جائے۔
اس کتاب کے مندرجات کی پیش کاری میں بہ ظاہر شیعہ اہل علم کا کوئی حصہ نہیں ہے، لیکن وہ ان نادان ماہرین تعلیم کے ذریعے بے جا طور ایسی بحث میں اُلجھیں گے۔ اس تجزیے میں کتاب کے ان دیگر معاملات کو پیش نہیں کیا جا رہا کہ جن کا تعلق جہاد، ختمِ نبوتؐ اور دیگر اُمور سے ہے۔ کیا ہمارے حکمران اس چہیتے نظامِ تعلیم میں کسی درجے کا کوئی کردار ادا کرنے میں بے بس ہیں ؟ اگر وہ بے بس ہیں تو پھر ’جی سی ای‘ نظام کو پاکستان کے بہترین دماغوں ،