کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 32
صورتِ حال درج کرنا مناسب نہ سمجھی ہو کہ اس عمر کے بچوں کے سامنے یہ سوال کھڑا کرنا مناسب نہیں ۔ خوب، مگر یہ احتیاط دیگر تاریخی روایات یا مناقشوں میں کیوں روا نہیں رکھی گئی۔
کتاب کے چھٹے حصے کے پہلے باب (ص ۱۶۳ تا ۱۷۷) میں بھی متعدد مسائل چھیڑے اور پھر نیم پخت انداز سے چھوڑ دیے گئے ہیں ۔ اس درجے میں بچے کے سامنے حدیث اور اس کی تدوین کے معاملات کو بیان کیا گیا ہے۔ حدیث کی اہمیت اور سند کی صحت کے لیے جملہ احتیاطوں اور اسماء الرجال کے بے مثال پہلو کو پیش کرنے کے بجاے چلتے چلتے بہت سی چیزوں کو بے ربط انداز میں بیان کردیا گیا ہے، حالانکہ یہ تمام چیزیں سخت فنی نوعیت کی ہیں جو بہتر اور متوازن اُسلوب کا تقاضا کرتی ہیں ۔ یہاں پر بالخصوص ایک اور نکتے کی جانب توجہ دلانا ضروری ہے اور وہ یہ کہ صفحہ۱۷۳ میں شیعہ تدوین حدیث کا ذکر کرکے ایک بار پھر اسلامی اور ملّی ہم آہنگی پر ضرب لگائی گئی ہے۔
ایک طرف صحیح، حَسن، ضعیف اور وضعی احادیث (ص ۱۶۵، ۱۶۶) کا مسئلہ پیش کرکے بتایا گیاہے کہ سب سے پہلے امام مالک رحمہ اللہ (۹۶ ھ) نے، پھر امام احمد رحمہ اللہ بن حنبل (۱۶۴ ھ) اور ان کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ (۱۹۴ھ)، امام مسلم رحمہ اللہ (۲۰۲ھ) اور ان کے بعد ابوداؤد، امام ترمذی، امام نسائی، ابن ما جہ رحمہم اللہ وغیرہ نے لاکھوں احادیث میں سے چند ہزار احادیث مرتب کیں ۔ ان میں کہیں فاضل محدث کی تاریخ پیدایش، کہیں تاریخ وفات اور کہیں ایسی کچھ بھی معلومات درج نہیں ہیں ۔ کیا کوئی نصابی کتاب ایسی تساہل پسندی کی متحمل ہوسکتی ہے؟ دوسرا یہ کہ لاکھوں احادیث کے استرداد کا کوئی موزوں جواز بھی بچوں کے سامنے پیش نہیں کیا جاسکا۔ یہ چیز بچے کے ذہن میں شک کا کانٹا بوسکتی ہے۔ پھر جیساکہ عرض کیا جا چکا ہے کہ صفحہ ۱۷۳ پر شیعہ تدوین حدیث کانکتہ اُٹھا کر بہت سے سوالات کی آنچ کو تیز تر کردیا گیا ہے۔ شیعہ احادیث کے تین مجموعوں یعنی اُصولِ کافی، من لایحضرہ الفقیہاور تہذیب الأحکام کے نام پیش کیے گئے ہیں اور ان کے مرتبین کی تاریخ ِانتقال بالترتیب ۳۲۸، ۳۸۱، ۴۶۰ ہجری ہے۔ گویا کہ سُنّی احادیث اور شیعہ روایات کی تدوین کا یہ زمانی فرق بذاتِ خود ایک سوال پیدا کرتاہے۔
خلفاے راشدین رضی اللہ عنہم کے لیے مخصوص ساتویں باب میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمات پر