کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 31
۱۳برس کے بچے کے ذہن میں یہ پیراگراف بہت سے سوال اُٹھاتا ہے، جنھیں زیربحث لانے کے بجاے اصل مقدمہ یہ ہے کہ وہ مسلمان جو اس عقیدے کو اپنا جزوِ ایمان نہیں سمجھتے، ان کے لیے ایک طرف ’امامت‘ بطورِ عقیدہ قبول ہے، مگر دوسری جانب یہ سوال تو اُٹھے گا کہ امامت نے پہلے چار سو سال تو اُمت کی رہنمائی کی، مگر بعد کے ایک ہزار میں رہنمائی و دست گیری کا وہ ادارہ کیوں معطل ہوگیا؟ اس ادھیڑبُن میں وہ استاد جس کی طبیعت اس تفصیل کو منطقی سطح پر ماننے سے انکار کرتی ہے، (لازماً طلبہ اور اساتذہ کی بڑی تعداد تو انہی خیالات کے حاملین پر مشتمل ہوگی) جب وہ دونوں مل کر کلاس روم میں بحث، مناظرے اور سوال و جواب کے گرداب میں پھنسیں گے تو خود سوچ لیجیے، اس میں اسلامیات کا یہ مضمون کہاں گم ہوجائے گا اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا روشن خیال مشرف نامہ کس بارگاہ میں سرخرو ہوگا؟
آگے چل کر ایک بار پھر حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی شخصیت کے بارے میں ایک غلط تاثر پیش کیا گیا ہے:
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے دوران میں ، امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کو شام کا گورنر بنا دیا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کی گورنری کو برقرار رکھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے زمانے میں اُنہیں منصب سے معزول کرنا چاہا، مگر معاویہ رضی اللہ عنہ ان کی مخالفت پر اُتر آئے اور ان کے خلاف جنگ ِ جمل اور صفین لڑی۔‘‘ (ص ۱۳۱)
اس بیان کو بھی بچوں کی ذہنی سطح کے پس منظر میں پرکھا جائے تو ان کے سامنے سوالات کا ایک پہاڑ آن کھڑا ہوتا ہے۔ جواب دیا جائے تو بہت سے نازک اُمور زیربحث آتے ہیں ، جن سے کم از کم میٹرک کے استادوں کا حکمت سے عہدہ برآ ہونا اور اس سطح کے بچوں کو مطمئن کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے، تو پھر ہم آہنگی کا وہ افلاطونی نظریہ کہاں گیا…؟
کتاب کے صفحہ ۱۴۰، ۱۴۱ پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے محترم چچا اور حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ کے والد ِگرامی جناب ابوطالب کا تذکرہ ہے، تاہم اس میں ان کے قبولِ اسلام نہ کرنے کا ذکر نہیں ۔ احادیث میں درج ہے کہ ان کے آخری وقت میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اصرار کر کے فرمایا کہ کلمہ پڑھ لیں مگر اُنہوں نے نہ پڑھا۔ ممکن ہے کہ کتاب کی مصنفہ نے اس لیے یہ واقعہ یا یہ