کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 3
بیزاری جیسی بدترین صورتحال سے نمٹنے کا حکومت کے پاس کوئی وقت نہیں اور محض ۱۰۰ دن گزرنے اور موروثی مسائل کا کہہ کر اپنی ذمہ داری سے جان چھڑا لی جاتی ہے، لیکن اگر ملک کے معصوم عوام ’مسلمانوں ‘ پر قیامت ڈھانے کا کوئی مسئلہ ہو یا اسلام کے خلاف کوئی جارحانہ اقدام پیش نظر ہو تو اس میں حکومت کی جراء تیں اور دلچسپیاں دیدنی ہوتی ہیں ۔ حکمرانوں کا یہی رویہ اس ملک کے لئے پہلے بھی سنگین آزمائش بنا رہا ہے اور اب بھی اسے مزید ناکامیوں سے دوچار کرنے کا سبب ٹھہرے گا۔ کاش! ہمارے حکمران ہوش کے ناخن لیں اور ربّ ِکریم کو ناراض کرکے اپنی ناکامی ونامرادی کو خود ہی دعوت نہ دیں ۔
پاکستان میں دوبرس قبل جس طرح حدود قوانین میں تبدیلی کے لئے مجنونانہ میڈیا مہم بروے کار لائی گئی تھی، اور اس کے نتیجے میں ایسا ظالمانہ قانون ملک میں نافذ کردیا گیا تھا جو ملک کے اسلامی تشخص پر آج بھی کلنک کا ایک ٹیکہ ہے، اسی طرح گذشتہ ایک ماہ سے پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت نے مغربی دباؤ اور پروپیگنڈے سے متاثر ہوکرسزاے موت کے خاتمے کی بھی کوشش شروع کررکھی ہے اور وفاقی کابینہ نے اس سزا کو ختم کرنے کی منظوری دیتے ہوئے ایوانِ صدر میں مسودہ بھیج دیا ہے۔
یہ قانون جہاں پاکستان میں نافذ موت کی ۲۶ سزاؤں میں تبدیلی کا موجب ٹھہرے گا، وہاں اس کے ذریعے پاکستان میں نافذ العمل قصاص ودیت کے اسلامی قوانین میں بھی غیر شرعی تبدیلی واقع ہو گی۔مزید براں توہین رسالت کا قانون بھی عملاً غیرمؤثر ہو کر رہ جائے گا، جس کے خاتمے کے لئے مغرب عرصۂ دراز سے پاکستان پر دباؤ ڈال رہا ہے۔
یاد رہے کہ پیپلز پارٹی کی سرگرم رکن اور موجودہ وفاقی وزیر اطلاعات شیری رحمن نے حدود اللہ میں ترمیم کو بھی اپنا ’سنہرا کارنامہ‘ قرار دیا تھا اور موجودہ رسوا کن تبدیلی کے سلسلے میں بھی اسی کابینہ کا نام لیا جارہاہے۔ اللہ کے قانون سے کھیلنا اور اس پر اِترانا اللہ کے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے اور مسلمانی کا دعویٰ کرنیوالے نامعلوم یہ جرات کہاں سے حاصل کرلیتے ہیں کہ دل میں کسی ملال وپریشانی کے بجائے اپنے سیاہ کارناموں پر فخر بھی کرنا شروع کردیں ۔
’سزائے موت کا خاتمہ‘ انسانی حقوق کی مغربی تنظیموں کا پرانا مطالبہ اور اس گھسے پٹے تصور