کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 28
شائع کی ہے، اور نظرثانی کے دوران میں جن ابواب کو کتاب سے خارج کیا گیا ہے، وہ ہیں : اسلام اور معاشرتی زندگی، اسلامی اخلاقیات (شائستگی، احترام، نظم، عدل وانصاف)، اسلام اور انسانوں کے حقوق وغیرہ __ اس کے بجاے جو مواد شامل کیا گیا ہے، وہ ہے: اسلام کی سیاسی تاریخ، شیعہ عقائد کے حوالے سے اُمور۔ یہاں پر قابلِ غور بات یہ ہے کہ روشن خیالی اور جدیدیت کے علَم برداروں نے اسلامیات کے قومی نصاب پر فرقہ واریت کا الزام دھرتے ہوئے اسے تلپٹ کرنے کا اہتمام کیا ہے، مگر اپنے ممدوح نصابِ تعلیم میں شیعہ سُنّی فرقہ واریت پر مبنی لوازمہ غیرمناسب اور غیرمتناسب انداز سے پیش کیا ہے، اور وہ بھی ۱۳ سے ۱۶ سال کی عمر کے بچوں کے نصاب میں ، جو عمر کے اس حصے میں ایسے اختلافی اُمور سے بالاتر ہوتے ہیں ، یا اُنہیں عملی طور پر اس تفریق سے بالا رکھنا ضروری ہے۔ اس طرح یہ نظرثانی شدہ کتاب اسلامی اخلاقیات اور اس کی روح کو نظرانداز کرکے فرقہ وارانہ اختلاف کی بنیادوں کو گہرا کرنے کا سامان مہیا کرتی ہے۔ قرآن کی تفسیر کا تذکرہ پڑھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ مصنفہ کے بقول: ’’یہ عربی لفظ fasara سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے: تشریح کرنا۔‘‘(ص ۳۳) فسارا یا فصارا یا فثارا، تینوں لفظ ناقابلِ فہم ہیں ۔اگر یہ عربی لفظ فَسَّرَ ہے تو پھر اس کی انگریزی اِملا درست نہیں ۔ اس کتاب کے مندرجات میں موجود خوبیوں اور فنی کمزوریوں پر گفتگو سے زیادہ اہم نکتہ وہی ہے جسے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کہتے ہیں ، اور یہی چیز اس میں تشویش کا پہلو لیے ہوئے ہے۔ یہ امرواقعہ ہے کہ یہ مندرجات شیعہ علما نے کتاب میں شامل نہیں کرائے، لیکن جب ان پر بحث اُٹھ کھڑی ہوگی تو پھرلامحالہ اُنہیں درمیان میں آنا پڑے گا۔ اگرچہ وہ مناظرے کے اس اسٹیج کو تیار کرنے کے ذمہ دار نہیں ۔ اب دیکھئے: کتاب کا حصہ چہارم اور باب سوم۔ باب سوم کا عنوان ہے: ’امامت‘۔ امامت محض ایک لفظ نہیں ، اس کا ایک مخصوص پس منظر ہے، اس کا تعلق تاریخ کی ایک خاص تعبیر سے ہے، یہ لفظ محض واقعاتی تعبیر ہی پر منتج نہیں ہوتا بلکہ اس کا تعلق عقیدے، ایمان اور اَفکار سے بھی جڑتا ہے۔ یہی چیز بہ اندازِ دگر اس باب میں زیربحث آئی ہے۔ دسویں جماعت کے بچوں کے سامنے اور وہ بھی اکثر سُنّی طالب علموں کے