کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 26
تعلیم وتعلّم سلیم منصورخالد
’او‘ لیول کی اسلامیات میں فرقہ واریت
جب سے انگریز بہادرنے اس خطے پر قبضہ جمایا ہے، تب سے ہمیں وہی چیز پسند آتی ہے جسے انگریز یا انگریزی سے نسبت ہوتی ہے۔ دیگر باتیں تو ایک طرف، ہمارے ہاں اپنی ذاتی پہچان کے حوالے ’دستخط‘ تک انگریزی ہی میں ثبت کرنا تہذیب و شائستگی قرار پائے۔ کچھ یہی حال تعلیم کا ہے۔ کبھی تعلیمی معیار کی علامت عیسائی مشنری تعلیمی ادارے تھے، اور ابھی تک ہم اسی جادو کے اسیر تھے کہ اب اس کے ساتھ ’اے‘ لیول اور ’او‘ لیول کا برطانوی امتحانی نظام (GCE) بھی ہمارے ذہنوں پر بھوت بن کر مسلط ہوگیا ہے۔ جس فرد کے پاس چند ہزار روپے فاضل ہیں یا جو شخص واقعی ’اسٹیٹس‘(status) کے بارے میں حساس ہے، اس کے قدم خود بخود انہی اداروں کی جانب اُٹھ جاتے ہیں ۔ آج پاکستان کا قومی تعلیمی نظام کس کسمپرسی سے دوچار ہے، اس کا اندازہ جی سی ای نظام کے بڑھتے ہوئے رجحان سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔
گذشتہ چند برسوں کے دوران میں پاکستان پر مسلط فوجی حکمرانوں نے بظاہر ناصحانہ، مگر دراصل بے جا طور پر یہ طوفان اُٹھائے رکھا کہ ’’اسلامیات کی کتاب میں فرقہ واریت ہے، ہمیں ایمانیات اور تاریخ کے بجاے زندگی کے معاملات پر اسلامی سوچ طالب علموں میں منتقل کرنی ہوگی اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔‘‘ ساتھ ہی ایک جرنیلی وزیرتعلیم نے یہ بھی فرمایا کہ ’’قرآن کے ۴۰پارے ہوتے ہیں ۔‘‘ کچھ لوگوں نے اسے جنرل موصوف کی لغزش زبان (slip of tongue) قرار دیا، مگر کچھ لوگوں کے بقول: یہ بات ویسے ہی نہ کہی گئی تھی بلکہ اس کے پیچھے ایک نظامِ فکر کا دباؤ (push) بھی کہیں نہ کہیں موجود ہوسکتا ہے۔ بہرحال قومی نظامِ تعلیم اور قومی نصابِ تعلیم پر چار حرف بھیجنے والے فوجی حکمرانوں اور ان کے پشت پناہ مغرب زدہ لوگوں کی یہ ہوشیاری زیادہ دیر تک اپنا رنگ نہ جما سکے گی۔