کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 24
5. اور ان کے فضلا کے لئے اندرون وبیرون ملک مختلف میدانوں میں کام اور ترقی کے وسیع اور اچھے مواقع میسر ہوں گے، اور وہ چھ یا آٹھ سالہ تعلیمی کورس مکمل کرنے کے بعد نہیں ، بلکہ صرف تین سالہ کورس کرنے کے بعد بھی عربی زبان اور اسلامیات کے اچھے معلم ثابت ہوں گے، نیز وہ اعلیٰ تعلیم کے لئے عرب دنیا کی کسی یونیورسٹی میں داخلے کے اہل ہوں گے، ان شاء اﷲ تعالیٰ وہو المُوَفِّق والمُستعان ! 4. تقاضے اور ضروریات کما لا یخفٰی علی السادۃ العلماء والمدرّسین قرآنِ کریم کی تعلیم وتدریس کو ترقی دینے کی اس تجویز پر اگر صدقِ دل اور محنت سے عمل کیا گیا تو یہ ان شاء اﷲ تعالیٰ ہماری عظیم اسلامی درسگاہوں کے نصابِ تعلیم، طریقۂ تدریس اور مجموعی ماحول میں ایک مثبت اور تعمیری انقلاب کا ذریعہ بنے گی، اور ان کے اسلامی اور ملی کردار اور عظمت میں اضافہ ہوگا۔ اس لئے محترم علماء اور مدرسین کو کتاب اللہ اور دوسرے علومِ شرعیہ کی تدریس میں موجود اس دیرینہ نقص کا فوری اِزالہ کرتے ہوئے اپنے طلبہ اور طالبات کی زیادہ معیاری تعلیم وتربیت کا اہتمام کرنا چاہئے۔ اس اصلاحی مہم میں ایسے حضرات کو مؤثر کردا ادا کرنا چاہئے جو ان عظیم اسلامی درسگاہوں کے ترقی کے لئے کام کر رہے ہیں ، خصوصاً وہ حضرات جنہوں نے الجامعۃ الإسلامیۃ العالمیۃ اسلام آباد، الجامعۃ الإسلامیۃ مدینہ منورہ اور مکہ، ریاض یا قاہرہ وغیرہ کی دوسری یونیورسٹیوں اور اداروں سے کسب ِفیض کیا ہے۔ البتہ اس تجویز کے مناسب اور مؤثر نفاذ کے لئے دو چیزوں کی فوری ضرورت ہوگی: 1. قرآنِ کریم کی ایسی تدریس میں معلّمین اور طلبہ وطالبات کی رہنمائی اور مددکے لئے مناسب دلیل یا مرشد المُعلم (teacher's guide) کی تیاری۔ الحمد للّٰہ معہد اللغۃ العربیۃ میں اس کی تیاری اور تصنیف پر چند سالوں سے کام جاری ہے۔ 2. قرآنِ کریم کی اس نہج پر تعلیم وتدریس کی رہنمائی کیلئے معلّمین اور معلّمات کو کم از کم دو ہفتے کی تعلیمی تربیت دی جائے۔ یہ عملی تربیت وفاق کی سطح پر بھی دی جاسکتی ہے۔ وفاق المدارس السلفیہ نے گذشتہ ماہ (۲۶/ اپریل تا یکم مئی ۲۰۰۸ء)فیصل آباد میں ۱۵۰ معلّمین