کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 18
پس چہ باید کرد؟
اسلامی مدارس کے ابتدائی سالوں میں جو طلبہ اور طالبات عربی زبان اور اسلامی تعلیم کے مختلف علوم وفنون پڑھتے ہیں ، اُنہیں کتاب اللہ کی تعلیم وتدریس جدید تعلیمی نظریات اور تجربات کے مطابق اور عالمی سطح پر مسلّمہ اور معیاری طریقۂ تدریس کے مطابق کی جائے جس کا خاکہ ذیل میں دیا جا رہا ہے… واﷲ الموفق والمستعان !
اوّلاً:اس مضمون کا موجودہ عنوان ’ترجمہ قرآنِ کریم‘ بدل کر اسے تعلیم القرآن الکریم یا تدریس القرآن الکریم کا نام دیا جائے۔
ثانیاً:ان طلبہ اور طالبات کے لئے تدریس القرآن الکریم کے ہر سبق میں درج ذیل تین اجزا یا حصے ہوں گے:
شرح الکلمات 2. ترجمۃ الآیات وشرحہا 3. المناقشۃ
أ۔ شرح الکلمات:معلم ہر سبق کے شروع میں اس کی مقررہ آیاتِ کریمہ کے الفاظ اورتراکیب کی لغوی تشریح کو تختۂ سیاہ پر لکھے تاکہ بچے اسے اپنی کاپیوں میں درج کریں ۔
اس جز کے تیس (۳۰) نمبر ہوں گے۔
۲۔ ترجمۃ الآیات وشرحہا: بعد ازاں معلم ان آیاتِ کریمہ کا مقامی زبان میں ترجمہ کرے گا اور بچوں کے معیار کے مطابق ان کی تشریح کرے گا۔ اس ترجمہ کے پچیس (۲۵) نمبر اور تشریح کے پندرہ (۱۵) نمبر ہوں گے۔ یوں اس جز کے کل چالیس (۴۰) نمبر ہوں گے۔
۳۔ المُناقـشـۃ: آخر میں معلم ان آیاتِ کریمہ کے جملوں اور مضمون پر زیر تعلیم بچوں کے معیار کے مطابق آسان عربی زبان میں سوالات تختہ سیاہ پر لکھے گا اور بچے ان سوالات کے عربی میں جواب دینے کی زبانی مشق کریں گے اور بعد میں ان سوالات اور ان کے جوابات کو اپنی کاپیوں میں لکھیں گے۔ اس جز کے تیس (۳۰) نمبر ہوں گے۔
1. مجوزہ تبدیلیاں
ملکی درسگاہوں میں کتاب اللہ کی ایسی معیاری اور جامع تدریس کے لئے ہمیں اس کے موجودہ طریقۂ تدریس میں درج ذیل دو بڑی تبدیلیاں کرنا ہوں گی: