کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 17
میں ۱۹۷۳ء کے آخر میں اسلامی یونیورسٹی مدینہ منورہ میں اعلیٰ تربیتی کورس کے لئے گیا تو میرے ہمراہ محترم ڈاکٹر شیرعلی اور مولانا محمود اشرف بھی تھے۔ میں اس سے پہلے ہی پاکستان میں عربی زبان اور دیگر اسلامی علوم کی جدید نہج پر تدریس کر رہا تھا۔ مولانا عبدالرحیم اشرف کی سرپرستی میں سات آٹھ سال جامعہ تعلیماتِ اسلامیہ میں بہت عمدہ تجربات ہوئے اور یہیں سے نصابی کتابوں کی تصنیف شروع کی۔ بعدازاں چند ماہ محتر ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی تنظیم اسلامی اور جامعہ اشرفیہ میں عربی زبان کی تدریس کرتا رہا۔ وہاں کے بزرگوں مولانا عبیداللہ، مولانا عبدالرحمن اشرفی اور مولانا حافظ فضل الرحیم سب کا اعتماد اور تعاون حاصل رہا۔ اسلامی یونیورسٹی، مدینہ منورہ میں اپنے قیام کے دوران مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ سے گاہے گاہے ملاقات ہوتی تو ان سے دار العلوم ندوۃ العلماء کے اس وقت کے نصابِ تعلیم اور برصغیر پاک وہند میں عربی زبان وادب کی اشاعت پر تبادلہ خیال ہوتا۔ وہ اکثر میری سوچ اور جذبہ عمل کی حوصلہ افزائی فرماتے۔ ایک بار اُنہوں نے حرمِ مکی میں مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ’’بشیر صاحب! مملکت ِپاکستان میں عربی زبان کے ایک سپاہی کی ضرورت ہے اور وہ آپ ہی ہوسکتے ہیں ۔ لہٰذا سفارت خانے کی ملازمت کو چھوڑ کر پاکستان جائیے۔‘‘ میں پہلے ہی اسی نظریے کو لے کر عالم عرب میں عربی زبان وادب کی ترقی کا مشاہدہ اور مطالعہ کرنے کی غرض سے سعودی عرب گیا تھا۔ مزید کسی ڈگری یا ملازمت کا حصول میرا مقصد نہ تھا۔ اس سے قبل ان کی تصنیف ’پا جا سراغِ زندگی‘ پڑھ چکا تھا اور اس سے متاثر تھا، اس لئے ان کی اس رائے سے میرے پرانے تصور کو تقویت ملی۔ چنانچہ میں نے جدہ کے پاکستانی سفارتخانے میں ملازمت کے دنوں میں اقرأ الجزء الاوّل کا مسودہ تیار کر لیا تھا اور الجزء الثانی کی ترتیب جاری تھی۔ آخر میں اپنے مہربان دوست اور تعلیم عربی کے عالمی ماہر جناب ڈاکٹر ف عبد الرحیم مؤلف کتاب دروس اللغۃ العربیۃ (تین حصے) کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں کہ جن کے ساتھ سعودی عرب میں اپنے قیام کے دوران اور کئی تعلیمی کانفرنسوں میں تبادلہ خیال کا موقع ملا اور ان کے تجربات سے استفادہ کیا۔