کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 16
سے محروم ہو، وہ اسے دوسروں کو نہیں دے سکتا)۔ انہی اسباب کی بنا پر ہم قیام پاکستان کے بعد آج تک ماہر معلّمین اور اساتذہ کی تیاری کے اس خلا کو پر نہیں کرسکے۔ اپنا مختصر تعارف چونکہ زیر بحث مسئلہ ملک بھر کے اسلامی مدارس کے نظامِ تعلیم سے متعلق ہونے کی وجہ سے نہایت اہم ہے اور عمیق غور وفکر کا متقاضی ہے، اس لئے میں اس موقع پر محترم علماء اور اساتذہ کی اطلاع اور اطمینان کے لئے اپنا مختصر تعارف عرض کرنا مفید خیال کرتا ہوں ۔ میں یہ گذارشات بتوفیقہ سبحانہ وتعالیٰ تعلیم وتربیت کے میدان میں اپنے طویل تجربات اور غور وفکر کی روشنی میں ان عظیم اسلامی درسگاہوں کو بہتر علمی وتعلیمی ترقی دینے کی غرض سے پیش کر رہا ہوں ۔ میں خود متعدد اسلامی درسگاہوں کا بانی ہوں ، اور دن رات ان کے بہتر اور ترقی یافتہ نصاب کی ترتیب وتصنیف میں مشغول رہتا ہوں ۔ ماضی میں ملت کے جن اکابر علماء اور مفکرین سے میرا کسی طرح کا تعلق رہا ہے، میں ان کی قیمتی آرا سے استفادہ کرتے ہوئے ہی اسلامی علوم اور عربی زبان کی خدمت کر رہا ہوں ۔ ان میں اوّلاً میرے اساتذہ مولانا عبدالغفار حسن، مولانا حافظ محمدمحدث گوندلوی، مولانا معاذ الرحمن، مولانا عبد اللہ امرتسری، مولانا مفتی سیاح الدین کاکاخیل اور مولانا مفتی ابوالبرکات مدراسی ہیں ۔ ان کے علاوہ مولانا عبدالرحیم اشرف، مولانا مفتی محمد شفیع (ان کی جو تقریر اب ’وحدتِ اُمت‘ کے عنوان سے چھپتی ہے، اسے اُنہوں نے پہلی بار مولانا عبدالرحیم اشرف کی درخواست پر ہمارے ادارے جامعہ تعلیماتِ اسلامیہ میں بیان فرمایا تھا، پھر راقم نے اسے کیسٹ سے قرطاس پر منتقل کیا تھا)، مولانا محمد یوسف بنوری، مولانا محمد اسماعیل سلفی، مولانا محمد حنیف ندوی، مولانا ابوالاعلیٰ مودودی، مولانا امین احسن اصلاحی، مولانا خلیل احمد حامدی، مولانا عطاء اللہ حنیف نیز مولانا ابوالحسن علی ندوی، مولانا منظور احمد نعمانی، اور مُعلِّم الانشاء کے مؤلف مولانا عبدالماجد ندوی اور اسی طرح اسلامی یونیورسٹی مدینہ منورہ کے وائس چانسلر اور سعودی عرب کے مفتی اکبر شیخ عبدالعزیز بن باز، الطریقۃ الجدیدۃ کے مؤلف ڈاکٹر احمد امین مصری کے اسماے گرامی شامل ہیں ۔ رحمہم اﷲ جمیعًا وغفر لہم ورفع درجاتہم!