کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 15
زور عربی عبارتوں کا لفظی ترجہ رٹنے اور صرف ونحو کی گردانوں اور قواعد کو استعمالات کے بغیر یاد کرنے پر ہی رہتا ہے، اس لئے ہمارے نہایت ذہین اور محنتی بچے بھی عربی ایسی آسان زبان کو لکھنے اور بولنے کی مشق نہیں کرتے۔ اور وہ قدرتی طور پر اس پہلو میں جمود کا شکار ہوتے ہیں جو آگے جا کر عملی زندگی میں ان کے لئے طرح طرح کی مشکلات کا باعث بنتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اس وقت جو طریقۂ تدریس ہمارے ہاں رائج ہے، اس میں طالبعلم سورئہ فاتحہ سے لے کر سورئہ ناس تک پڑھتے ہوئے عربی میں چند صفحات بھی لکھنے کی مشق نہیں کرتا۔
2. پھر اس ایک مضمون کے طریقۂ تدریس کی پسماندگی صرف اس ایک مضمون تک محدود نہیں ہے، بلکہ اکثر معلّمین تعلیم وتدریس کے فن سے نا آشنا ہوتے ہیں اور مدارس کی انتظامیہ بھی اُنہیں فن تعلیم میں تربیت اور تدریب کے مواقع فراہم نہیں کرتی، اس لئے وہ اس پرانے طریقۂ تدریس کو آسان اور چلتا ہوا سکہ خیال کرتے ہوئے اپنائے چلے جاتے ہیں ۔ چنانچہ اس وقت ہماری درسگاہوں میں اکثر مضامین کی تدریس اسی لفظی اور زبانی ترجمہ اور تشریح تک محدود رہتی ہے اور یہ طرزِ تدریس سالِ اوّل سے لے کر الشہادۃ العالیۃ اورالشہادۃ العالمیۃ تک بلکہ اس سے بھی آگے تخصص کی اقسام (تخصص فی التفسیر، تخصص فی الحدیث، تخصص فی الفقہ، تخصص فی الافتاء وغیرہ) اور یونیورسٹی کے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے کورس میں بھی جاری رہتا ہے۔ یوں کاہلی اور جمود کا یہ متعدی مرض نسل در نسل منتقل ہوتا رہتا ہے۔
3. ہمارے عربی مدارس اور اسلامی درسگاہوں میں رائج اس ناقص اور مضر طریقۂ تدریس کا ایک وسیع اور قومی سطح کا نقصان یہ ہو رہا ہے کہ یہ درسگاہیں آج تک سرکاری اور غیر سرکاری سکولوں اور کالجوں میں عربی زبان وادب اور اسلامی علوم کی معیاری تدریس کے لئے اچھے معلّمین اور اساتذہ تیار نہیں کرسکیں ، کیونکہ جن معلّمین نے خود ایسے ماحول میں تعلیم پائی ہوتی ہے، وہ عملی زندگی میں تدریس کے جدید اور ترقی یافتہ انداز اپنانے سے قاصر ہوتے ہیں ۔ یہ مسلّمہ قاعدہ ہے: فاقد الشيء لا یُعطیہ (جو شخص خود کسی خوبی