کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 14
عربی زبان میں چند صفحات لکھنے یا بولنے کی مشق نہیں کرائی جاتی۔ آپ کو شاید دنیا کے کسی ترقی یافتہ تعلیمی نظام میں کسی کتاب یا کورس کا محض لفظی ترجمہ رٹانے کے اس جمود کی ایسی کوئی مثال نہ ملے جو ہماری درسگاہوں میں سالوں تک جاری رہتا ہے۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ جمود عرصہ دراز سے چلا آرہا ہے۔ یہاں یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ عام لوگ جو کسی مستند تعلیمی درسگاہ میں نہ پڑھتے ہوں ، وہ اگر اپنی کاروباری مصروفیات سے کچھ وقت نکال کر صرف ترجمہ قرآن کریم پڑھیں تو یہ ان کے لیے بہت کام کی بات ہے، کہ وہ اس طرح قرآن کریم کے الفاظ کا لفظی ترجمہ یاد کرکے اللہ تعالیٰ کے احکام اور ارشادات سے آگاہ ہورہے ہیں ۔ لیکن جس گروہ نے اپنی عمروں کا بہترین وقت کسب وتعلّم کے لئے وقف کیا ہوا ہے اور وہ اسلامی تعلیم اور عربی زبان کے تمام بنیادی علوم وفنون کو سالہا سال پڑھیں گے اور مستقبل میں بلند علمی مناصب پر فائز ہوں گے، کیا وہ بھی ان عام لوگوں کی طرح سالوں قرآن کریم کا صرف لفظی ترجمہ ہی رٹتے رہیں ؟ ایسی صورتحال میں یہ لازمی اور مفید ہوگا کہ جب ان میں مناسب صلاحیت کے ساتھ ساتھ وقت کی گنجائش بھی ہوتی ہے تو اُنہیں اس کتابِ حکیم کا مقامی زبان میں ترجمہ کرنے کے علاوہ اس کی آسان اور مبارک عربی لغت، محاوروں اور استعمالات پرمفید معلومات بھی فراہم کی جائیں اور پھر ان معلومات کو ان کے ذہنوں میں راسخ کرنے اور ان کے عملی استعمالات کی تربیت دینے کی غرض سے ان سے متنوع مشقیں حل کرائی جائیں ۔ ہم تعلیم قرآن اور عربی زبان کے اچھے معلم کیوں تیار نہ کرسکے؟ ہماری عظیم درسگاہوں میں کتاب اللہ کی تعلیم وتدریس جس سادہ اور ناقص طریقے پر چلی آ رہی ہے اسکے مضر اثرات کی وسعت کا جائزہ لینے کے لئے ان پہلوؤں پر غور کرنا مفید ہوگا: 1. ہمارے طلبہ اور طالبات اپنی نوعمری میں پوری لگن اور شوق سے اپنا تعلیمی سفر شروع کرتے ہیں ، اس لئے یہ ان کی عمدہ تعلیم، بہتر تربیت اور تخلیقی صلاحیتوں کی اچھی نشو ونما کا سنہری موقعہ ہوتا ہے، اور اُنہیں عربی زبان کو لکھنے اور بولنے کا ابتدائی سلیقہ اور تربیت دینے کا بھی یہی فطری وقت ہوتا ہے، لیکن چونکہ ہماری درسگاہوں میں مروجہ طریقۂ تدریس کا زیادہ