کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 13
ہمارے دینی تعلیمی نظام کا اہم ترین مضمون تعلیم قرآنِ کریم ہے اور زیر تعلیم طلبہ وطالبات کو اس کی بہتر تعلیم وتفہیم کی خاطر اُنہیں عربی زبان وادب اور حدیث و فقہ نیز اُصول کے کئی علوم وفنون کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ اس لیے ایک ایسی جماعت جسے ہم مستقبل میں اُمت کی تعلیمی اور فکری قیادت کے لیے تیار کر رہے ہیں اور وہ عنقریب معلم، ادیب، مفتی وخطیب اور محدث ومفسر کی عظیم ذمہ داریوں کو سنبھالیں گے،اس کو کتاب اللہ اور فرقانِ حمید کی تعلیم وتدریس کا طریقہ اور منہج ایسا جامع، منظم اور مثالی ہونا چاہیے جو اُنہیں قرآنی الفاظ اور عبارتوں کا ترجمہ سکھانے کے ساتھ ساتھ ان کی عمدہ فکری، لسانی اور ادبی تربیت ومہارت کی اَساس بن سکے۔ صرف لفظی ترجمہ رٹنے کا متعدی مرض اس وقت صورتحال یہ ہے کہ تعلیم قرآنِ کریم کا یہ عظیم ترین مضمون، اس کی عبارت کا صرف لفظی اور زبانی ترجمہ رٹنے اور رٹانے تک محدود چلا آ رہا ہے اور تین چار سال تک اسی نہج پر چلتا رہتا ہے، اور ایسا کوئی اہتمام نہیں کیا جاتا کہ اس مضمون کے دوسرے سال یا اگلے سالوں میں اس کے تعلیمی مقاصد یا تدریسی نہج میں مزید ترقی کرتے ہوئے اس میں مزید تعلیمی مقاصد کا اضافہ کردیا جائے۔ نتیجتاً معلّمین اور طلبہ وطالبات سب کی نظریں اسی لفظی ترجمہ کو پڑھنے، پڑھانے اور یاد کرنے تک مرکوز اور محدود رہتی ہیں ۔ رہا قرآنِ کریم کا اصل عربی متن تو وہ ان سب کی نظروں سے اس قدر اوجھل رہتا ہے کہ اس پورے عرصے میں اُنہیں اس کی عبارتوں ، استعمالات اور الفاظ کے فہم ومطالعہ پر کوئی بحث یا مشق نہیں کرائی جاتی۔ اس لیے وہ قرآنِ کریم کے نہایت آسان عربی استعمالات اور محاوروں سے بھی ناواقف رہتے ہیں اور مشہور قرآنی افعال کے مادوں اور ان کے صلات تک کو نہیں سمجھتے۔ ہماری اسلامی درسگاہوں میں تعلیم قرآن ایسے بنیادی اور اہم اسلامی مضمون کا یہ جمود نسل در نسل چلا آرہا ہے اور اس نے ہمارے لاکھوں ذہین اور محنتی نوجوانوں کی تعلیم وتربیت پر کئی منفی اثرات ڈالے ہیں جن میں سے سب سے زیادہ نمایاں نقصان یہ ہے کہ ان لاکھوں نوجوانوں کو کتابِ حکیم کی عربی زبان وادب کے فہم ومطالعہ سے اس حد تک محروم رکھا جاتا ہے کہ اس کی تدریس تین چار سال کا طویل عرصہ جاری رہنے کے باوجود معلّمین یا طلبہ کو اس پر