کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 12
درسگاہوں میں جاری وساری ہے اور اس کی افادیت پر تمام علماء اور مدرّسین کا اتفاق ہے۔ تنقیدی نظر میں اس امر سے اتفاق کرتا ہوں کہ ترجمہ قرآنِ کریم کی تدریس سے مذکورہ بالا فوائد حاصل ہوتے ہیں ، اور اس مضمون کے مروّجہ طریقۂ تدریس کی اِتنی افادیت مسلّمہ امر ہے۔ لیکن قرآنِ کریم کی تعلیم وتدریس کے یہ فوائد خود ناکافی اور محدود ہیں اور یہ اس کی تعلیم وتدریس کے کئی دیگر بنیادی تعلیمی مقاصد کا اِحاطہ نہیں کرتے۔ کیونکہ یہ طریقۂ تدریس عالمی سطح پر مسلّمہ تعلیمی معیار پر پورا نہیں اُترتا اور بچوں کی اچھی تعلیم وتربیت کے کم از کم لازمی تقاضوں کی تکمیل نہیں کرتا۔ چنانچہ انہی اسباب کی بنا پر ہمارے نونہالوں کی تعلیم وتربیت کے کئی اہم اور بنیادی گوشے تشنہ رہ جاتے ہیں ۔ اور مملکت ِپاکستان میں ہماری دینی اور تعلیمی ضروریات کی تکمیل کے لئے جس سطح کے ماہر معلّمین، اساتذہ، علما اور اسکالرز کی ضرورت ہے، ان کی تعلیم وتربیت میں بھی یہی ناقص طریقۂ تدریس نافذ وغالب ہے، اس لئے بہتر نتائج حاصل نہیں ہوتے۔ اس طریقۂ تدریس کے فوائد کے مقابلے میں نقصانات زیادہ ہیں ۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس میں زیر تعلیم بچوں کو قرآنِ کریم کی آیاتِ کریمہ کا صرف مقامی زبان میں ترجمہ کرنے پر لگا کر قرآن کی آسان عربی زبان اور اَدب کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے اور اُنہیں اس کو لکھنے یا بولنے کی کوئی تربیت نہیں دی جاتی۔ بلکہ اُنہیں ایسی تربیت یا مشق سے کئی سال تک مسلسل لا تعلق رکھتے ہوئے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو اتنا جامد کردیا جاتا ہے کہ اس کے بعد وہ عربی زبان وادب میں اچھی صلاحیت یا بلند مقام کا سوچ بھی نہیں سکتے، اور وہ اس کے بارے میں ہمیشہ کے لئے مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ اس لئے تعلیم قرآن کریم کے مروّجہ طریقۂ تدریس کی فوری اِصلاح کرتے ہوئے اسے اپنے قومی اور ملی مقاصد اور تعلیم وتربیت کے جدید تقاضوں کے مطابق ترقی دینا ضروری ہوجاتا ہے۔ میں دینی مدارس کے اساتذہ، مہتمم حضرات اور تعلیمی وفاقوں کے ذمہ دار بلند مرتبہ علماے کرام اور شیوخ سے درخواست کرتا ہوں کہ میری ان گزارشات پر توجہ فرمائیں ۔ إن أرید إلا الإصلاح ما استطعت وما توفیقی إلا باﷲ!