کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 11
تعلیم وتعلّم مولانا محمد بشیر[1]
دینی مدارس میں تعلیم قرآن کا جامع اور صحیح طریقہ
یہ امر کسی سے مخفی نہیں ہے کہ ہمارے ملک، برصغیر پاک وہند کے پورے علاقے کی دینی درسگاہوں بلکہ سرکاری سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی، قرآنِ کریم کی تعلیم وتدریس کا جو طریقہ عرصۂ دراز سے رائج چلا آ رہا ہے، وہ ’ترجمہ قرآنِ کریم‘ کے نام سے معروف ہے۔ یہ بچوں کی ابتدائی تعلیم کے مرحلے میں تین چار سال تک جاری رہتا ہے۔ اور اس کی تدریس یوں ہوتی ہے کہ درس کے آغاز پر ایک طالبعلم مقررہ آیات تلاوت کرتا ہے، پھر معلم ان آیاتِ کریمہ کا اپنی مقامی زبان اُردو، پشتو یا سندھی وغیرہ میں ترجمہ سکھاتا ہے۔ وہ ان کا ترجمہ کرتے ہوئے ان میں مذکور مشکل الفاظ اور تراکیب کی حسب ِضرورت تشریح بھی کرتا جاتا ہے۔ طلبہ اور طالبات اس ترجمہ اور تشریح کو نہایت توجہ اور انہماک سے سنتے ہوئے یاد کرلیتے ہیں ۔ کچھ مدرّسین اور شیوخ خصوصاً تفسیر قرآن کے مرحلے میں قرآنی مطالب کی تفسیر کو اِملا بھی کرادیتے ہیں ۔ بلا شبہ قرآنِ کریم کی تعلیم وتدریس اور تفسیر کے اس منہج سے زیر تعلیم طلبہ کو مندرجہ ذیل تعلیمی اور دینی فوائد حاصل ہوتے ہیں کہ
1. وہ قرآنِ کریم کے لفظی اور بامحاورہ معنی سیکھ لیتے ہیں ۔
2. وہ قرآنِ کریم کے الفاظ اور تراکیب کو سمجھنے لگتے ہیں اور کسی حد تک ان کی لغوی، صرفی اور نحوی تشریح سے آگاہ ہوجاتے ہیں ۔
3. وہ قرآنِ حکیم کا ترجمہ اور تشریح نیز تفسیر پڑھ کر اس کے متن کے براہِ راست فہم ومطالعہ کی اہلیت حاصل کرلیتے ہیں ، اور قرآنی احکام وارشادات سے استفادہ کے اہل ہوجاتے ہیں ۔
چنانچہ ان متعدد فوائد کی بنا پر ’ترجمہ قرآن حکیم‘ کا یہ مضمون ہماری تمام چھوٹی اور بڑی
[1] مدیر معہد اللغۃ العربیۃ ، اسلام آباد مشہور کتاب ’ عربی کا معلم ‘ کے منصف