کتاب: محدث شمارہ 322 - صفحہ 10
مندرجہ بالا قانونی توجیہ اور مقدمے کا حوالہ وفاقی وزارتِ قانون کے اس جواب سے ماخوذ ہے جو وفاقی کابینہ کی خدمت میں بھیجا گیا تھااور اس مراسلہ کی تفصیلات سے روزنامہ جنگ نے مؤرخہ ۶/ جولائی کے اِداریے میں پردہ اُٹھایا ہے۔ اس تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ موت کی سزا کا خاتمہ مغربی قوتوں کے دباؤ اور انسانی حقوق کے مغربی تصور کا نتیجہ ہے جس میں اسلام کے تصورِ جرم اور احکامات کو نظر انداز کرتے ہوئے مجرم سے نرم سلوک کرکے معاشرے میں بھائی چارہ پیدا کرنے کی فرضی کوشش بروئے کار لائی جا رہی ہے۔ یہ ترمیم مشرف کے کارندوں کے ذریعے عمل میں لائی جارہی ہے جس میں وزیر اعظم غالباً اسی سیاسی مفاہمت کی بنا پر شریک ہیں جو پیپلز پارٹی اور پرویز مشرف کے مابین پروان چڑھ رہی ہے۔ حالیہ مجوزہ ترمیم سے جہاں ملک کے قانونی ڈھانچے کے شدید متاثر ہونے کا خدشہ ہے، وہاں اس ترمیم میں دراصل رہے سہے اسلامی قوانین کو غیرمؤثر کرنے کی کوشش بھی کارفرما ہے۔ قانونی پہلو سے اس ترمیم کے غیر مقبول ہونے کی بنیاد بھی آخرکار اللہ کے دیے ہوئے قوانین اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین مبارکہ ہی ہیں جس کی تفصیل مستقل مضمون میں پیش کی گئی ہے۔ حکومت ِوقت کو اپنی ذمہ داری نبھانے، عوام کو ریلیف دینے یا ملک کو مشکلات سے نکالنے کے کسی ٹھوس اقدام کی توفیق ہے اور نہ ہی فرصت، لیکن اسلام اورمسلمانوں کے خلاف کسی اقدام کے لئے اس پریشانی وآزمائش کے دور میں بھی حکومت پرویز مشرف کی قیادت میں یکسو ہے۔ مسلمانانِ پاکستان کو چاہئے کہ اس سلسلہ میں عدالت ِعظمیٰ کا بھرپور ساتھ دیتے ہوئے اپنا مکمل احتجاج ریکارڈ کرائیں تاکہ حدود قوانین کی طرح ملک میں رہے سہے اسلامی قوانین بھی غیر مؤثر ہو کر نہ رہ جائیں ۔ دینی جماعتوں او رتحریکوں کو یہ مسئلہ بھی اپنے ترجیحی ایجنڈے میں شامل کرنا چاہئے کہ یہ ان کے مقصد ِ وجود کا بنیادی تقاضا ہے اور ان کی بنیادی اور منصبی ذمہ داری بھی! (حافظ حسن مدنی)