کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 9
(بشمول ہاتھ سے بنائی گئی) حرام نہیں ، شریعت میں تصویر کی تمام تر حرمت خارجی وجوہ (مثلاً فحاشی وشرک وغیرہ) کی بنا پر ہے۔ تصویرکشی اسلامی شریعت کی رو سے ایک مرغوب ومطلوب امر ہے۔ الغرض اس سلسلے میں علما کے تین حلقے ہیں جن سب کا اس نتیجہ میں تو اتفاق ہے کہ فی زمانہ تبلیغ اسلام کیلئے ٹی وی پر آنا جائز ہے، البتہ فتویٰ کی تعبیرو توجیہ ہر ایک کے ہاں جداگانہ ہے۔ پہلا حلقہ پہلے گروہ کی نظر میں تصویر کی اوّلین نوعیت اور فی زمانہ استعمال کی جانے والی تصاویر میں ماہیت اور طریقہ کے اعتبار سے اگرچہ کچھ فرق بھی پایا جاتا ہو لیکن ان کے حکم میں کوئی فرق نہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت قیامت تک کے لئے ہے، اور اس میں ہردور کے مسائل کے بارے میں مکمل رہنمائی موجود ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو تصویر کی حرمت کی وجوہات فوٹو گرافی والی تصویر میں زیادہ بہتر(کاملاً)اور ویڈیو میں انتہائی بہترین (اکملا ً) پائی جاتی ہیں ، اس لئے تصویر کے ظاہری پہلو سے ان پر بحث کرنے کی بجائے ان تمام نئی صورتوں کو بھی تصویر قرار دیا جائے گا، بلکہ جوں جوں اس میں تصویری عنصراور خصوصیات کامل تر ہوتی جائیں گی، توں توں اس کی حرمت شدید تر ہوتی جائے گی۔ ان علما کے خیال میں یہ بحث کہ تصویر ہاتھ سے بنائی گئی، یا ظاہری سادہ وجود رکھتی ہے یا نہیں ؟ اس کا تعلق نفسِ مسئلہ کی بجائے تمدن کی ترقی سے ہے اور صرف طریقہ مختلف ہونے کی بنا پر تصویر کے حکم میں تبدیلی پیدا کرنا حیلے سازی کے مترادف ہے ، ان چیزوں سے اصل مسئلہ میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس سلسلہ میں ان کا استدلال ’نفس تصویرکی خصوصیات‘ اور اس کے لئے عربی لغت میں بولے جانے والا اَلفاظ واِطلاقات سے بھی ہے۔جب ہر نوعیت کی تصویر کو آج تک ’تصویر‘ اور ’صورت‘ سے ہی تعبیر کیا جاتا ہے تو احادیث میں ’صورت‘، ’مصور‘ اورتصویر کے لئے بولے جانے والے تمام الفاظ دورِ حاضرکی جملہ تصاویر کو بھی شامل ہیں ۔ مذاکرہ میں ان راسخ فکر علما کا یہ موقف تھا کہ کسی خارجی غلط وجہ (مثلاً فحاشی اور فسق وفجور) کے بغیر بھی تصویر کی حرمت براہِ راست قائم ہے جس کی وجہ اللہ کی صفت ِخالقیت ومصوریت میں مشابہت ہے اور اس کی احادیث میں انتہائی سنگین وعید آئی ہے۔ البتہ یاد رہے کہ تصویر کی یہ