کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 8
کے اس حکم ممانعت سے بصراحت لڑکیوں کا اپنی گڑیوں وغیرہ سے کھیلنا خارج ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ احادیث ِنبویہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اجازت دی ہے۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ نے قراردیا ہے کہ جمہور اہل علم کے نزدیک گڑیوں سے کھیلنے کی اجازت مستثنیٰ ہے۔ (فتح الباری) البتہ بعض علما کے نزدیک یہ اجازت بھی منسوخ ہے۔ (الجواب المُفید از شیخ ابن باز: رحمہ اللہ ص ۲۲)
مذاکرہ میں پیش کردہ آرا کا تقابل وتجزیہ
مذاکرہ کے دوران راقم کا تاثر یہ رہا کہ حالات کی سنگینی اور تبلیغ اسلام کے اہم فریضے سے عہدہ برا ہونے کے پیش نظر، اپنی منصبی ذمہ داری کو جانتے سمجھتے ہوئے حاصل بحث اور نتیجہ کے اعتبار سے تما م اہل علم کی آرا میں کوئی واضح اختلاف نہیں پایا جاتا، اور یہی اتفاق اور قدرِ مشترک متفقہ قرار داد کو منظور کرنے کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔
مذکورہ بالا دو مسائل کے بارے میں علماے کرام کے موقف اور رجحانات کا خلاصہ یہ ہے کہ اس نکتہ پر تو تمام علما کا اتفاق ہے کہ فی زمانہ تبلیغ دین کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ٹی وی پر آنا جائز ہے، البتہ ہر عالم دین نے اپنی اپنی اُفتادِ طبع، ذوق اور علم کی روشنی میں تشریح وتعبیرکا اُسلوب مختلف اپنایا ہے۔ اس مرکزی نتیجہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے علما کے موقف اور طرزِ استدلال کو جاننے کے لئے ان کو تین مختلف حلقوں میں تقسیم کیا جاتا ہے:
1. پہلے حلقے کے علما کرام کے نزدیک تصویر کشی اور ٹی وی / ویڈیو شریعت ِاسلامیہ کی رو سے اصلاً حرام ہے جس کے نتیجے میں ٹی وی پر آنا بھی ناجائزہے، البتہ فی زمانہ تبلیغ اسلام کے لئے مختلف خارجی وجوہ کی بنا پر اس کی اجازت دی یا اسے گوارا کیا جاسکتا ہے۔
2. بعض علماء نے تصویر اور ٹی وی / ویڈیو کے احکام میں فرق کیا ہے۔ ان کے نزدیک تصویر تو اصلاً حرام ہے ، البتہ ٹی وی/ ویڈیو تصویر کی اس شرعی حرمت میں شامل نہیں ۔ چنانچہ اس طرح احکامِ تصویر کی توجیہ اور ان میں باہمی فرق کرتے ہوئے اُنہوں نے یہ گنجائش دی ہے کہ اپنی اصل کے اعتبار سے ہی جدید الیکٹرانک میڈیا وغیرہ پر آنا شرعاً جائز ہے۔
3. اہل علم کے تیسرے گروہ کے نزدیک تصویر کے شرعی حکم میں فوٹوگرافی شامل ہی نہیں بلکہ یہ عکس ہے۔ بعض دانشوروں نے تو یہاں تک کہا ہے کہ تصویر کی کوئی صورت بھی فی نفسہٖ