کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 70
رکھ لے۔حضرت ربیع رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ ہم اس دن کے بعد سے ہمیشہ خود روزہ رکھتیں اور ہمارے بچے بھی روزہ سے ہوتے اور جب بچوں کو لے کر ہم مسجد میں جاتیں تو روئی سے ان بچوں کو کھلونے بنا دیتیں ۔ یہ کھلونے بھی ہمارے ساتھ ہوتے۔ جب کوئی بچہ کھانا مانگتے مانگتے روپڑتاتو ہم یہ کھلونے دل بہلانے کو اسے دے دیتیں یہاں تک افطاری کا وقت ہو جاتا۔‘‘ ایک روایت میں یہ ہے: بچے جب ہم سے کھانے کو مانگتے تو انہیں مشغول کرنے کے لیے یہ کھلونے دے دیتیں تاکہ وہ بچے بھی روزہ مکمل کر لیں ۔ (بخاری: ۴/۱۶۳، مسلم: ۳/۱۵۲۔ اصل عبارت صحیح مسلم کی ہے اور کچھ زیادہ باتیں دیگر روایات سے لی ہیں ) ‘‘ ہم نے جن اکابر اہل علم کا ذکر کیا ہے، ان کے نزدیک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شدید ارشادات کی بنا پر تصویر فی نفسہٖ حرام ہے ،لیکن بعض اہم ضرورتوں کی بنا پر چند صورتیں اس سے مستثنیٰ ہیں جیسا کہ گڑیوں اور پاسپورٹ وغیرہ کی اہمیت کے پیش نظر تصویر کی گنجائش موجود ہے۔ جبکہ بعض متجددین کے سر پر’ فنونِ لطیفہ‘کا جنون سوار ہے اور وہ تصویر اور رقص وسرود کو بنیادی طور پر ایک مستحسن اور مطلوب شرعی قرار دیتے ہیں ۔اگرچہ حلقہ اشراق نے تصویر کے موضوع پر جو کتابچہ ’اشراق کے خاص نمبر برتصویر‘ کے بعد شائع کیا ہے، اس میں سدذریعہ کا نکتہ ذکر کیا ہے لیکن انہوں نے یہ خرابی، خاص علاقے اور خاص دور تک ہی محدود رکھی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو دائمی طور پر تسلیم نہیں کیا۔ ( دیکھیں ’تصویر کا مسئلہ‘ از محمد رفیع مفتی:ص۹۵) جبکہ ہماری رائے اس سے قطعی مختلف ہے، ہم تصویر کی اصلاً حرمت کے قائل ہیں البتہ اس کی و جۂ حرمت سدذریعہ ہی کو قرار دیتے ہیں ،کیونکہ سد ذریعہ بسا اَوقات حرام ہونے کے باوجود اہم مقاصد کے پیش نظر جائز ہو جاتا ہے۔ٹیلی ویژن اور اس جیسے دیگر الیکڑانک میڈیا پر امر بالمعروف ونہی عن المنکر جیسے اعلیٰ شرعی مقاصد کی تکمیل کے لئے ہم احترام کیے بغیر تصویر کے استعمال کی اجازت دیتے ہیں ۔ سد ذریعہ کا باب مقاصد ِشریعت کی قبیل سے ہے اور قواعد فقہیہ کی صورت میں انہی مقاصد شریعت کا انضباط ہوتاہے لہٰذا اسی روحِ شریعت کو ملحوظ رکھتے ہوئے الضرورات تقدر بقدرہا جیسی پابندیوں کے ساتھ ہم الیکٹرانک میڈیا کے استعمال کی حوصلہ افزائی