کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 7
1. تصویر کی حرمت کی وجہ یہ ہے کہ اس میں اللہ کی صفت ِ تخلیق سے مشابہت پائی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اسماے حسنہ میں ایک نام ’مصور‘ اور اس کی صفات میں ﴿ہُوَ الَّذِيْ یُصَوِّرُکُمْ فِيْ الأرْحَامِ کَیْفَ یَشَائُ﴾ شامل ہے، اس بنا پر تصویر بنانا سرے سے حرام ہے اور تصویر کشی کی فی نفسہٖممانعت کی وجہ یہی ہے۔ اسی لئے مصوروں کے لئے احادیث میں سخت ترین وعید آئی ہے کہ روزِ قیامت اُنہیں شدید ترین عذاب ہوگا اور اُن سے اپنی تصویر شدہ اشیا میں روح ڈالنے کا مطالبہ کیا جائے گا۔ البتہ بعض احادیث وآثار سے پتہ چلتا ہے کہ مشابہت کا یہ وصف صرف ذی روح اشیا تک محدود ہے۔ جمادات اورقدرتی مناظر کی تصاویر بنانا جائز ہے۔ غرض تصویر کی حرمت کی ذاتی اور اہم وجہ اللہ کی تخلیق سے مشابہت ہے۔ اس نکتہ کی مزید وضاحت مولانا شفیق مدنی کے خطاب(ص ۶)، شیخ عبد الرحمن عبد الخالق کے کتابچہ بر تصویر (ص۵)اور ابن دقیق العید (شرح العمدۃ: ۳/۲۵۶) میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ 2. تصویر کی حرمت کی وجہ یہ بھی ہے کہ اس سے شرک اورغیر اللہ کی معبودیت کا دروازہ کھلتا ہے۔ امکانِ شرک کا یہ عنصر مقدس اور عظیم شخصیات میں قوی تر ہوجاتا ہے جیسا کہ پہلی اَقوام میں تصویر اور مجسمہ سازی اسی نتیجہ شرک پر منتج ہوتی رہی ہے۔ اس بنا پر شرک کا رستہ بند کرنے کے لئے سد ِذریعہ کے طورپر تصویر کشی حرام ہے۔ اس امکان کے اِزالے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ تصویر میں سروغیرہ کٹے[1] ہوئے ہوں ، اور اگر وہ کہیں موجودہو تو اس کو محل اِہانت میں رکھا جائے کیونکہ پوری تصویر کسی بھی وقت شرک کا نقطہ آغاز بن سکتی ہے۔ اس نکتہ کی مزید تفصیل والد گرامی حافظ عبد الرحمن مدنی کے خطاب (ص:۲،۳) میں اور شیخ عبد الرحمن عبد الخالق کے کتابچہ (ص:۶) میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ 3. تصاویر بنانا تو مندرجہ بالا وجوہ کی بنا پر حرام ہے، البتہ کسی بنا پر حاصل ہوجانیوالی تصویر کے بارے میں شریعت ِاسلامیہ کا موقف یہ ہے کہ تصویر کو نمایاں کرنا باعث ِنحوست ہے اوراس کے سبب رحمت کے فرشتے گھر میں داخل نہیں ہوتے۔ اس نحوست کے خاتمے کا طریقہ احادیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ تصویر کو اِعزاز واِکرام کی بجائے زمین میں پامال کیا اورروندا جائے۔ بعض اہل علم نے حرمت ِتصویر کی وجہ غیرمسلموں سے مشابہت بھی بتائی ہے۔ البتہ تصویر
[1] ((الصورۃ الرأس فإذا قُطع فلا صورۃ)) (أخرجہ البیہقي۷؍۲۷۰) وصحَّحہ الألباني