کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 69
الفائدۃ بطریق أصلہ مباح،مثل التصویر الذي یحتاج إلیہ الطبّ وفي الجغرافیا وفي الاستعانۃ علی اصطیاد المجرمین والتحذیر منہم ونحو ذلک فإنہ جائز بل قد یکون بعضہ واجبًا في بعض الأحیان والدلیل علی ذلک حدیثان … الخ
(بحوالہ حکم التصویر في الإسلام: ۶۶)
’’(مسئلہ تصویرپر)اپنی گفتگو ختم کرنے سے قبل میں اس امر کی طرف توجہ مبذول کرانا ضروری سمجھتا ہوں کہ اگرچہ ہماری رائے تصویر کی حتمی طور پر حرمت کی ہے۔ تاہم اس بارے میں ہم کوئی مانع نہیں پاتے کہ اگر تصویر میں کسی نقصان کے خطرہ کے بغیر حقیقی فائدہ موجود ہواور یہ فائدہ کسی جائز طریق سے حاصل نہ سکتا ہو، تو تصویر کی گنجائش ہے۔ علم طب، جغرافیائی ضرورتیں ، مجرموں پر ہاتھ ڈالنے اور ان کی غلط کاریوں سے بچاؤ وغیرہ جیسے مقاصد تصویر کشی کا جواز پیدا کرتے ہیں بلکہ بعض خاص صورتوں میں تصویر کشی واجب بھی ہو جاتی ہے۔اس پر درج ذیل دو حدیثیں دلیل ہیں :
1. حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا (اُمّ المومنین)گڑیوں کے ساتھ کھیلا کرتی تھیں توجناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کھیلنے والی سہیلیاں بلا لاتے تھے۔ (بخاری:۱۰/۴۳۴،مسلم:۷/۱۲۵، احمد: ۶/۱۶۶ ، ۲۳۳،۲۴۴، واللفظ لہ، ابن سعد:۸/۶۶)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے طبقات ابن سعد۷/۶۶کی ایک دوسری صحیح روایت ہے کہ کھیل کے لیے ان کے پاس گڑیاں تھیں اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم داخل ہوتے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کپڑے سے پردہ کر کے اوٹ میں ہو جاتے تاکہ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنا کھیل جاری رکھیں ۔(یہ لفظ ابو عوانہ کے ہیں )
آگے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی وہ حدیث بھی آرہی ہے جس میں اس بات کا ذکر ہے کہ ان کے پاس گھوڑا بھی تھا جس کے چیتھڑوں کے بنے ہوئے دوپر تھے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’اس حدیث سے گڑیوں کی تصویریں بنانا تا کہ لڑکیاں ان سے کھیلیں ، کے جواز کی دلیل حاصل کی جاتی ہے اور یہ تصویروں کی ممانعت والے حکم سے الگ ہے۔ اسی پر قاضی عیاض رحمہ اللہ نے اطمینان ظاہر کیا ہے اور جمہور علماء کا یہی موقف نقل کیا ہے کہ جمہور نے لڑکیوں کی لڑکپن ہی سے گھریلو اور اولاد کی تربیت کی غرض سے گڑیوں سے کھیل کی اجازت دی ہے۔‘‘
2. ربیع بنت معوذ بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کی صبح مدینہ منورہ کے اردگرد بستیوں میں پیغام بھیجا کہ جوکوئی ناشتہ کر چکا ہے وہ تو سارادن بے روزہ رہے لیکن جو نہار منہ ہے وہ روزہ