کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 68
1. قیاس میں علت کی بنا پر حکم میں توسع پیدا ہوتا ہے جبکہ سدذرائع میں وسعت ِحکم میں رکاوٹ ڈال کر اسے محدود کیا جاتا ہے ۔مثلاً اوپر کی مثالوں میں قیاس کی صورت ایک کھڑکی کے ساتھ دوسری کھڑکیوں کوبھی کھولنا میں شامل کرلیا گیا، جبکہ سدذرائع میں اسلحہ کی نمائش اور تحائف جیسے جائز معاملات کو بھی محدود کر دیاجاتا ہے۔
2. دوسرا فرق یہ ہے کہ قیاس مخصوص نصوص کی بنا پر شرعی احکام کا پھیلاؤ ہوتاہے جبکہ سدذریعہ کا طریقہ شرع کے عمومی مقاصد کے پیش نظر کیا جاتا ہے۔مثلاً عمومی امن وامان کے لیے ہتھیار کی نمائش روک دی جاتی ہے اور عمومی رشوت کا دروازہ بند کرنے کے لیے تحائف کا لین دین بھی رشوت قرار پاتا ہے۔
3. تیسرا فرق یہ ہے کہ قیاس میں علت وحکمت مطرد یعنی ہمیشہ جاری اور ساری رہتی ہے، مثلاً مسافر کے لیے ہمیشہ روزہ میں رخصت ہے مگر سدذریعہ میں حکمت اہمیت ِمقاصد کے تحت بدلتی رہتی ہے بلکہ بسا اوقات راجح مصلحت کے تحت ناجائز کام بھی جائز ہو جاتے ہیں جیسا کہ حق تلفی اور ظلم کو دفع کرنے کے لیے رشوت دینے کی اجازت ہے۔اسی طرح مسلمان قیدیوں کو دشمن سے چھڑانے کے لیے فدیہ دینا جائز ہو جاتا ہے۔اسے فسخ ذریعہ کہتے ہیں۔
سدذریعہ کے ان امتیازات کے پیش نظر ہم کہتے ہیں کہ تصویر کا مسئلہ سدذرائع کے باب سے ہے۔یہی وجہ ہے کہ تصویر میں اکابر علماء فتویٰ کے اختلافات کے باوجود مقاصد کی اہمیت کی بات بھی کرتے ہیں ۔مثلاً شیخ ابن باز رحمہ اللہ ،علامہ البانی رحمہ اللہ اور شیخ محمد صالح فوزان بچوں کو کھیل یا لڑکیوں کی تربیت کے لیے گڑیوں کی اجازت دیتے ہیں ۔ اسی طرح پاسپورٹ،شناختی کارڈ وغیرہ کی بھی اہمیت کے پیش نظر تصویر کی رخصت دیتے ہیں ۔ہم یہاں ان سب سے زیادہ راسخ بزرگ شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کی ایک عربی عبارت کا حوالہ دیتے ہیں :
وقبل أن أنہی ہذہ الکلمۃ لایفوتني أن ألفت النظر إلی أننا وإن کنا نذہب إلی تحریم الصُّور بنوعیہ جازمین بذلک فإننا لا نرٰی مانعًا من تصویر ما فیہ فائدۃ متحققۃ بدون أن یقترن بہا ضرر ما، ولا تتیسر ہذہ