کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 67
بلکہ اب موبائل فونوں اور کیمروں کی کثرت نے تو اس کی کوئی اہمیت نہیں رہنے دی۔
حرمت ِتصویر کی حکمت
مداہنت کی ایک بڑی وجہ تصویر کشی کے بعض پہلو اور حرمت ِتصویر کی حکمت میں بعض اختلافات بھی ہیں ۔تصویر کشی کے وہ پہلو جن میں تمدنی ارتقا اور عکس وتصویر کا فرق تھا، اس کی تو وضاحت ہو چکی، البتہ حرمت ِتصویر کی حکمت ایک خالص اُصولی مسئلہ ہے۔میں کوشش کروں گا کہ اسے آسان صورت میں پیش کر سکوں ۔ابتدا میں احکامِ شرعیہ کی توجیہ وتعلیل کو ہم نے فقاہت قرار دیا تھا لیکن یہ توجیہ وتعلیل فنی طور پر قیاس میں ہوتی ہے اور سد ذریعہ میں بھی۔
[ پہلے ہم قیاس اور سد ذریعہ کی تعریف کرتے ہیں :
1. قیاس :کتاب وسنت میں کسی شرعی حکم کی توجیہ کی بنا پر مذکورہ حکم کو دیگر مماثل اشیا پر بھی لاگو کرنا۔ روزمرہ معاملات میں اس کی سادہ مثال یہ ہے کہ ایک کمرہ میں چند کھڑکیاں ہیں ،گھر کا مالک خادم سے کہتا ہے کہ کھڑکی بند کردو کیونکہ کمرہ میں دھوپ آرہی ہے، چنانچہ ملازم نے ایک کھڑکی کے ساتھ دوسری کھڑکیاں بھی بند کر دیں کیونکہ ان سے بھی دھوپ آرہی تھی۔گویا قیاس میں حکم لفظ تک محدود نہیں ہوتا بلکہ وجہ معلوم کر کے اس سے مربوط کیا جاتا ہے، اسی لیے اس وجہ کو ’مناط‘(کھونٹی)کہتے ہیں کیونکہ وہ حکم اس سے منسلک ہوتا ہے۔
2. سد ِ ذریعہ:لغوی معنی: ’وسیلہ میں رکاوٹ ڈالنا ‘۔ اس میں بھی کسی حکم کی تعمیل میں توجیہ وتعلیل پر غور کیا جاتا ہے کہ کیا کوئی نقصان یا شرعی مقاصد تو متاثر نہیں ہو رہے۔اگر شرعی طورپر کوئی خرابی لازم آتی ہے تو تعمیل سے ہاتھ روک لیا جاتا ہے ۔اس کی سادہ مثال یوں ہے کہ عموماً تشدد کے خوف سے اسلحہ کی نمائش سے منع کر دیا جاتا ہے، حالانکہ اپنی حفاظت کے لیے اسلحہ رکھنا ہر انسان کی ضرورت ہے۔ ایسے ہی شرعی طور پر سرکاری ملازمین کو رشوت کے خوف سے تحائف وصول کرنے سے ہاتھ روک لینا چاہیے۔ سد ذریعہ میں شرعی حکم کا تعلق حکمت سے ہوتا ہے اور وہ حکمت اصل مسئلہ کی بجائے اس کے وسیلے اور ذریعے کی رکاوٹ سے حاصل ہوتی ہے۔
دونوں میں فرق: قیاس اور سدذریعہ دونوں کا تعلق اگرچہ شرعی توجیہ وتعلیل سے ہے، تاہم چند باتوں میں فرق ہے ، مثلاً