کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 66
دوسری بات یہ ہے کہ عکس اس وقت تک قائم رہتا ہے جب تک اصل سامنے موجود ہوچنانچہ عکس جب ثبت ہو جاتا ہے تو وہ تصویر بن جاتی ہے۔اس بنا پر یہ کہنا کہ تصویر ہاتھ سے بنائی جائے تو وہ حرام ہے اور جو فوٹوگرافی کی صورت میں کھینچ لی جائے وہ حلال ہے، درست نہیں ہے۔ میں واضح کر چکا ہوں کہ تصویر سازی میں جدید آلات کا استعمال تو تمدنی ارتقا کا مسئلہ ہے،بلکہ اگر اتنی اچھی تصویر بنائی جائے کہ اس کے اندر جسمانی کے علاوہ نفسیاتی آثاربھی نکھرتے چلے جائیں تویہ انسانی ترقی کی مہارت ہے۔چنانچہ بعض اوقات اتنی اچھی تصویر بنائی جاتی ہے کہ اس کے اندر جذبات کا اظہار بھی ہو جاتا ہے تو یہ سب تمدنی ارتقا ٭ کی قبیل سے ہے،کیونکہ اچھی تصویرسے اسی طرح جذبات کی عکاسی ہوتی ہے جس طرح شاعری سے جذبات کی لفاظی ہوتی ہے۔حاصل یہ ہے کہ تمدنی ارتقا کے لیے کوئی بھی طریقہ اختیار کیا جائے اس سے تصویر کی شرعی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
شرعی نصوص میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تصویر اور مصور ہر دو کے لئے جو وعید سنائی ہے اس کا مقصود نتیجتاً ایسانقش ہے جو تصویر کی صورت میں تیار ہوتا ہے۔تصویر کس چیز سے بنتی ہے اورکس طرح بنتی ہے ، اس کی شرع میں کوئی خاص اہمیت نہیں ہے؟اسی طرح جاندار کی ہر طرح کی تصویر حرام ہے خواہ وہ کپڑا، پتھر، لکڑی،سلور یا پلاسٹک پر ہو یا کسی اور ذریعہ سے حاصل ہو،کیونکہ تصویرتو ایک شکل ہے جب وہ کہیں قرار پاجاتی ہے تو وہ تصویر بن جاتی ہے ، البتہ جب وہ اصل کے ساتھ قائم ہوتی ہے تو اسے ’عکس‘ کہتے ہیں ۔ چنانچہ پانی میں ہو تو عکس ہے، آئینہ میں ہو تو عکس ہے، لیکن اگر کہیں شکل قرار پکڑ جائے تو وہ تصویر ہے۔ اس بنا پر ہر قسم کی تصویر ’تصویر‘ ہی ہے اورشرع میں اس کی حرمت بالکل واضح ہے۔
مسئلہ تصویر اور ہماری مداہنت
ہمارے ہاں یہ صورت قابل تشویش ہے کہ یوں تو اکابر علما تصویر کی حرمت کا فتویٰ دیتے ہیں لیکن عملاً اس معاملہ میں مداہنت دکھاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب عام علما اور عوام بھی حرام وحلال کی تمیز کے بغیر تصویر کشی کررہے ہیں ۔اس کی ایک وجہ تو وہ شبہات ہیں جن کا میں ذکر کرچکا ہوں ۔ان شبہات کا خاطر خواہ جواب سامنے نہ آنے پر مسئلہ تصویر کھیل بن گیا ہے