کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 63
دیا جائے گا۔اگر تو یہ پیشہ اختیار کرنا چاہتا ہے تو درخت اور بے جان اشیا کی تصویریں بنا۔‘‘
چنانچہ یہ کہناکہ تخلیق کی مشابہت حرمت ِتصویر کی کوئی خاص وجہ نہیں ہے کیونکہ یہ وجہ بے جان اشیا کی تصویر میں بھی پائی جا تی ہے جبکہ وہاں حرمت کا حکم موجود نہیں ہے اور جاندار اشیاء کو مخصوص کرنا بلا وجہ ہے بلکہ تصویر کی حرمت کی حکمت کچھ اور ہے (مثلاً شرک یا فحاشی وغیرہ) تو ہم کہتے ہیں کہ شرک اور فحاشی تو مطلقاً حرام ہیں خواہ تصویر کی صورت ہو یا کوئی دوسری جب کہ خاص طور پر تصویر کی حرمت بھی ہے جو جاندار کی تصاویر کے بارے میں ہے، لہٰذا وہ حکمت اللہ کی تخلیق خاص سے مشابہت بھی ہے۔
البتہ پہلے یہ وضاحت گزر چکی ہے کہ تخلیق الٰہی کی مشابہت سے مراد بھی فعل تخلیق کے بجائے مخلوق کو اللہ کے مشابہ قرار دینا کہ اس کی عبادت کا خطرہ ہے جس کی بنا پر تصویر کو حرام قرار دے کر شرک کے مفسدہ کا دروازہ بند کردیا گیا ہے۔
تصویر بنانے اور تصویر رکھنے کے حکم میں فرق
شرع میں جہاں تک تصویر کے رکھنے یا نہ رکھنے کا تعلق ہے تو اس میں بنیادی بات احترام کی ہے، یہ بھی شرک کی حوصلہ افزائی ہے۔تصویر بنانے اور تصویر رکھنے کافرق ہے کہ تصویر بنانے کی حرمت تومطلق ہے جب کہ تصویر کا وجودذلت کی بعض صورتوں میں گوارا ہے۔ چنانچہ حرمت کے بارے میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات بالکل واضح ہیں جن کی حکمت کی فنی تشریح تو میں بعد میں کروں گا۔ ان شاء اللہ، البتہ تصویر کے وجود کے بارے میں کہ جس مقام پر تصویر موجودہو تو اس کے اثرات کیا ہوتے ہیں ؟ ا س کا جواب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد میں یوں ہے۔حدیث میں آتا ہے:
عن أبي ہریرۃ قال: استأذن جبریل علیہ السلام علی النبي صلی اللہ علیہ وسلم فقال: ((اُدخل)) فقال: کیف أدخل وفي بیتک ستر في تصاویر فإما أن تقطع رؤسہا أو تجعل بساطًا یوطأ فـإنا معشر الملائکۃ لا ندخل بیتًا فیہ تصاویر (صحیح سنن نسائی:۴۹۵۸)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جبریل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے (گھر) پاس آنے کی