کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 62
ہے کہ تخلیق الٰہی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر شے میں مشابہت مراد نہیں تھی بلکہ اس سے روح والی اشیا میں تخلیق وتصویر کی مماثلت مراد تھی جیسا کہ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد موجود ہے ، فرمایا:
((من صوَّر صورۃ في الدنیا کُلِّف یوم القیامۃ أن ینفخ فیھا الروح ولیس بنافخ)) (صحیح بخاری:۵۹۶۳)
’’دنیا کے اندر کوئی شخص تصویر بنائے تو قیامت کے دن اسے اس بات کی ذمہ داری اُٹھانا ہوگی کہ وہ اس میں روح پھونکے، حالانکہ وہ یہ کام نہیں کرسکے گا۔‘‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی جس مشابہت سے منع کیا ہے، وہ عام مشابہت نہیں ہے بلکہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی ایسی مخلوقات کی تصویریں بنانا ہیں جن میں روح پھونک کر اللہ تعالیٰ نے زندگی پیدا کی ہے۔ اگر ان چیزوں کے بارے میں ایسی صورتِ حال پیش آئے کہ ان کی تصویر بنا کر یا ان کے عکس کو فوٹو گرافی کے ذریعہ سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی جائے تو یہ بات انتہائی مذمت کے قابل ہے۔
واضح رہے کہ بے جان اشیا کی تصویر بنانا جائز ہے جیسا کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے ایک پیشہ ور مصور کو مشورہ دیاتھا کہ اگر تجھے تصویریں بنانی ہی ہیں تو بے جان اشیا کی تصاویر بنا لے:
عن سعید بن أبی الحسن قال جاء رجل إلی ابن عباس فقال یا ابن عباس إني رجل أصوّر ہذہ الصور واصنع ہذہ الصور فافتني فیہا قال اُدن مني فدنا منہ حتی وضع یدہ علی رأسہ قال: أنبئک بما سمعت من رسول اﷲ یقول: ((کل مصور في النار یجعل لہ بکل صورۃ صوَّرہا نفس تعذبہ في جہنم)) فإن کنت لابد فاعلاً فاجعل الشجر وما لا نفس لہ۔ (مسند احمد:۱/۳۰۸ وأصلہ في البخاري)
’’سعید بن ابی الحسن رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور اپنا مسئلہ پیش کیا کہ میں ایسی (جاندار) تصویریں بناتا ہوں اور یہ میرا پیشہ ہے۔ مجھے اس بارے میں فتویٰ دیجئے تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اسے قریب کر کے اس کے سر پرہاتھ رکھا اور کہا کہ میں تمہیں اس بات کی خبر دیتا ہوں جو میں نے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، کہ آپ نے فرمایا:ہر تصویر بنانے والا آگ میں جائے گا، اس کی ہر تصویر کو ایک زندہ جان بنا کر اسکے ذریعہ جہنم میں عذاب