کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 61
توان کو پوجنے لگے۔‘‘ پہلی حکمت کے بارے میں اِجمال ہونے کی بنا پر مغالطہ پیدا ہوتا ہے کہ شاید تخلیق الٰہی سے مشابہت ہی کوئی بڑا جرم ہے، حالانکہ غور فرمائیے کہ تصویر کے علاوہ شریعت میں کہیں بھی تخلیقِ الٰہی سے مشابہت کو گناہ نہیں قرار دیا گیا بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام یہی کام بطورِ معجزہ کرتے رہے۔ علاج ومعالجہ کے ذریعہ صحت کا حصول بھی تخلیق الٰہی سے مشابہت ہی ہے، لیکن اس کی ممانعت کے بجائے حوصلہ افزائی ہے۔ لہٰذا حرمت وممانعت میں اصل نکتہ تخلیق الٰہی سے مشابہت نہیں کیونکہ اللہ کی ہر مخلوق جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خصوصی تخلیق روح کے بعد جیتا جاگتا انسان بنتا ہے، وہ بھی اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کے سامنے بے بس ہی ہوتا ہے۔یہی بے بسی ربّ العالمین کا شریک ِکار ہونے کی نفی کرتی ہے۔بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ اسے کسی درجہ میں بھی خالق کائنات کی طرح معبود ہونے میں شریک نہیں بنایا جا سکتا۔ لہٰذا اوّل نکتہ کا مقصود بھی گویا شرک کی ہی مذمت ہے۔اس طرح حرمت کی دوسری وجہ شرک کا سدباب کرنے کے لئے ہے۔حاصل یہ ہے کہ دونوں وجوہ دراصل1. شرک سے مشابہت اور2. شرک کا دروازہ بند کرنے پر مشتمل ہیں لہٰذا اس نکتہ پر دونوں حکمتوں کا اجتماع ہو کر ’امتناعِ شرک‘ ہی تصویر کی حرمت کی بنیادی وجہ قرار پاتا ہے۔ سادہ الفاظ میں مذکورہ دونوں حکمتیں نتیجتاً ایک ہی ہیں ، کیونکہ جب تصویر شرک کا ذریعہ بن سکتی ہے تو وسیلہ شرک کا حکم ممانعت ِشرک(مقصد ِشرعی) ہی ہوا،اسی بنا پر اسے شرک سے مشابہ قرار دیا گیا ہے۔لہٰذا وسیلہ شرک اور تخلیق الٰہی سے مشابہت شرک ہی ہے، اور اسی پر قیامت کے روز نفخ روح کا چیلنج درپیش ہو گا۔ صرف بے جان چیزوں کی تصاویر جائز ہیں بعض متجددین نے یہ الزامی اعتراض کیاہے کہ بے جان اشیا کی تصویر یا مجسمہ بنانے میں بھی اللہ تعالیٰ سے مشابہت لازم آتی ہے، لہٰذا اس بنا پر بھی بے جان اشیا کی تخلیق و تصویر شرعاً حرام ہونی چاہیے جب کہ وہ بالاتفاق جائز ہے۔ لیکن یہ الزام درست نہیں ،کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور فرمان اس بات کو نکھاردیتا