کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 54
ایسے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے موقع پر بھی قریش مکہ کی کڑی شرطیں قبول کر کے تمام مسلمانوں کو عمومی طور پر اور مکہ میں رہنے والے مسلمانوں کو خصوصی طور پر بڑے ضرر سے محفوظ رکھا۔اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حاطب بن ابی بلتعہ کا قریشِ مکہ کے نامخط لے جانے والی عورت کو خط حوالے نہ کرنے کی صورت میں برہنہ کرنے کی دھمکی دے دی تھی۔(صحیح بخاری:۳۰۰۷) تاکہ مسلمانوں کو بڑے اور اجتماعی نقصان سے بچایا جا سکے۔ شریعت کے اسی تصور کی بنا پر علماے کرام فریضہ دعوت وتبلیغ اورامر بالمعروف اور نہی عن المنکرکو ادا کرنے کی غرض سے ایسی مجلس،محفل یامیلہ اور دعوت میں جانے کی اجازت دیتے ہیں جہاں منکرات وفواحش کا وجود یقینی ہوتا ہے اور ایسے چند مسلمانوں کے قتل کرنے کی اجازت بھی دیتے ہیں جنہیں حملہ آور دشمن ڈھال بنا کر مسلمانوں کا اجتماعی اور بڑا نقصان کرنا چاہتا ہو۔ لہٰذا علماء کو چاہیے کہ وہ موجودہ دور کے مؤثر ذرائع ابلاغ، اخبارات اور ٹی وی پروگراموں میں شرکت کریں تا کہ کفر واِلحاد، عریانی فحاشی اور مغربی تہذیب کے مقابلہ میں عوام الناس کی صحیح دینی رہنمائی کر سکیں ، یہ ایک بہت بڑی تبلیغی ذمہ داری کی ادائیگی ہو گی۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اگر علماے کرام صرف تصویر سے بچنے کے لیے اپنی قوم کو لادین عناصرکے رحم وکرم پر چھوڑ دیتے،یا اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں پھیلائی گئی غلط فہمیوں اور پروپیگنڈے کے اِزالہ سے چشم پوشی کرتے ہیں ،یا مغربی فکر وتہذیب کے طوفانِ بلا خیز کا سد ِباب نہیں کرتے ہیں تو یہ ایک بہت بڑا قومی اور ملی نقصان ہے۔ اس نقصان کی تلافی یا اس سے بچاؤ کا مؤثر ذریعہمیڈیا کا استعمال ہی ہے کیونکہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو میڈیا کے پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر علما ،مساجد اور مدارس سے خاطر خواہ متاثر نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کے تبلیغی واِصلاحی مخصوص پروگراموں میں شرکت کرتے ہیں بلکہ اپنی دینی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے بھی میڈیا پر انحصار کرتے ہیں ۔ لہٰذا ہمیں سدذرائع کے اُصول کو اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ فتح الذرائع کے اُصول کوبھی اپنانا ہو گا۔یعنی جس طرح ہم ان وسائل کو حرام قرار دیتے ہیں جن کا نتیجہ بڑے فساد اور خرابی کی صورت میں نکلتا ہے خواہ فی نفسہٖ وہ وسائل جائز ہوں ، جیسا کہ شراب اور نشہ آور چیزوں کی