کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 53
قاعدہ بھی معروف ہے: إذا اجتمع الحلال والحرام غلب الحرام
’’جب حلال وحرام کے دلائل آپس میں ایک دوسرے سے معارض ہوں تو حرام کے دلائل کو ترجیح دی جائے گی۔‘‘
ایسے ہی اس سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بھی ہے:
((دَع ما یَریبک إلی مالا یریبک))(سنن ترمذی:۲۵۱۸)
’’یعنی شک اور تردّد والی چیز کو چھوڑ کر غیر مشکوک چیز کو اختیارکرو۔‘‘
اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے اثر سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے ، آپ سے سوال کیا گیا کہ دو سگی بہنوں کو نکاح میں ایک وقت میں رکھنا حرام ہے۔آیا دو بہنیں لونڈی کی حیثیت سے ایک آدمی کی ملکیت میں رہ سکتی ہیں ؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ایک آیت نے اُنہیں حلال قرار دیا ہے اور ایک آیت نے حرام ،اور مجھے اُنہیں حرام قرار دینا زیادہ پسند ہے۔ (موطا مالک:۲/۵۳۸)
خاص حالات میں میڈیا کے استعمال اورتصویر سازی کا حکم
تاہم خاص حالات میں تصویر سازی کی گنجائش موجود رہے گی۔ یاد رہے کہ اس گنجائش کا مقصد لوگوں کے لیے عریانی، فحاشی کا دروازہ کھولنا نہیں ہے جیسا کہ بعض علما اسے دلیل بنا کر بوقت ِضرورت بھی گنجائش کا دروازہ حتمی طور پر بند کر دیتے ہیں ،کیونکہ اگر تصویر کا مقصد عریانی، فحاشی یا دیگر منکرات کا فروغ ہو تو یہ عمل حرام اور گناہِ کبیرہ شمار ہو گا اور اس کی کوئی بھی صاحب ِعلم اِجازت نہیں دے سکتا۔
اس گنجائش سے ہماری مراداعلیٰ مقاصد کے حصول یعنی بڑے ضرر اور فساد سے بچنے یا کسی بڑے فائدے کے حصول کے لیے ایک چھوٹے نقصان اور خرابی کو قاعدہ (یُختار أخفّ الضررین)کے مطابق صرف برداشت اور گوارا کرنا ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حالات کے تقاضے کے مطابقتبلیغ کا بہتراور مؤثر طریقہ سمجھتے ہوئے میلے پر جاناگوارا کیا تھا۔ (صحیح بخاری:۷۷۳) اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں دیہاتی کے پیشاب کے ضرر کو برداشت کیا تھا۔ (صحیح مسلم:۲۲۱) تاکہ اس کے جسم ،کپڑوں اور مسجد کی زیادہ جگہ ناپاک ہونے سے بچانے کے ساتھ ساتھ اسے طبی نقصان سے بھی بچایا جاسکے۔