کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 52
سے رنگ تبدیل ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پھاڑ دیا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اللہ کے ساتھ مضاہات کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
((یضاہون خلق اﷲ)) أي یشبّہون ما یصنعونہ بما یصنعہ اﷲ
’’یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان:((یضاہون خلق اﷲ)) سے مراد یہ ہے کہ خود بنا کر گویا وہ اللہ کی بنائی ہوئی خلقت کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں۔‘‘(فتح الباری:۱۰/۳۸۷)
معلوم ہوا کہ کسی او رخارجی وجہ کے بغیر بھی محض تصویر بنانا ہی وجہ حرمت کافی ہے۔ جیسا کہ اوپر ابن العربی کا قول بھی گذر چکا ہے۔
سعودی عرب کی دائمی فتویٰ کونسل نے بھی اپنے فتویٰ میں قرار دیا ہے:
ولما فیہ من التشبّہ باﷲ في خلقہ الأحیاء ولأنہ وسیلۃ للفتنۃ وذریعۃ للشرک في کثیر من الأحوال (فتاوی اللجنۃ الدائمۃ: ۱/۶۶۱)
’’کتاب وسنت کی نصوص میں حرمت ِتصویر پر شدید وعید کی وجہ یہ ہے کہ اس میں اللہ کی ذی روح مخلوق کی تخلیق میں اللہ سے مشابہت پائی جاتی ہے او راس بنا پر بھی کہ اکثر مواقع پر تصویر فتنہ کا وسیلہ اور شرک کا ذریعہ ثابت ہوتی ہے۔‘‘
علاوہ ازیں اس میں مشرکین کے فعل سے مشابہت کو شامل کرنے کا سبب یہ ہے کہ بعض مقامات پر شارع نے صرف کفار سے مشابہت کی وجہ سے بھی بعض چیزوں کو حرام قراردیا ہے جیسا کہ مسلمانوں کو محض یہود کی مشابہت کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے وقت لفظ راعِنا کہنے سے منع کردیا حالانکہ مسلمانوں کے ذہن میں یہ لفظ کہتے وقت قطعاًآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین مراد نہ تھی۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا دوسری مشابہت کی تعلیل کے ضمن میں مذکورہ کلام بھی اسی پر دلالت کرتا ہے۔
ہماری نظر میں تصویر کی حرمت واضح ہے، اور اس سلسلے میں مختلف قسم کے شبہات کوکوئی وزن نہیں دینا چاہئے، اگر ان میں بظاہر کوئی معقولیت بھی نظر آئے تب بھی تصویر کے عدم جواز کا قائل ہونا ہی احکامِ شرعیہ کی بجا آوری میں محتاط رویہ ہے جس کا بہرحال پاس اور لحاظ رہنا چاہیے کیونکہ حرام سے بچنے کے لیے تومباح چیز کو ترک کردینا بہتر اور اولیٰ ہوتاہے چہ جائیکہ مباح کام کرنے کے لیے حرام کا ارتکاب کیا جائے۔اس کے بارے میں علما کے ہاں ایک