کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 51
جاتا ہے ۔
بعض مالکی اور حنبلی علما نے ذی روح کی تصویر کی حرمت میں اس کے مجسم اور سائے دار ہونے کو شرط قرار دیا ہے کیونکہ ایسی تصاویر کی ہی عبادت کیجاتی تھی۔ اور جہاں تک کاغذ، کپڑے اور دیوار پر بنی ہوئی تصویر کا تعلق ہے جس کا جسم اور سایہ نہیں ہوتا تو یہ حرام نہیں ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ذی روح کو مجسم، بلند قامت اور سایہ والا پیدا کیا ہے،بچھا ہوا پیدا نہیں کیا۔ لہٰذا اس میں اللہ کی تخلیق سے مشابہت لازم نہیں آتی اور ان کے خیال میں حدیث میں وارد لفظ ((إلا رقمًا في ثوب))سے اِسی بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ چنانچہ موجودہ دور کے بعض علما کا یہ موقف ہے کہ اَخبارات وغیرہ کی تصاویر بھی چونکہ بچھی ہوتی ہیں یعنی مجسم اور سائے دار نہیں ہوتیں اور ٹی وی کی تصاویر بھی غیر مجسم اور عارضی ہوتی ہیں ، گویا ان کے وجود کو شیشے،پانی اور سائے کی تصویر کی طرح بقا حاصل نہیں ہوتی لہٰذا ایسی تصاویر بنانے میں کوئی حرج نہیں ۔
مذکورہ بالادلائل وتوجیہات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ذی روح کی تصویرکو عام حالات میں جائز قرار دینے والوں کے دلائل اور تعلیل و توجیہ کمزور ہیں ، کیونکہ حرمت ِتصویر کی تخلیق الٰہی سے مطلق مشابہت ایک منصوص، مضبوط اور دائمی علت ہے۔ چاہے تصویر بنانے والا قدرتِ الٰہی کو چیلنج کرنے کا اِرادہ رکھتا ہو یااس کے ذہن میں یہ مقصد کار فرما نہ ہو ، ایسے ہی تصویر شرک کا ذریعہ بنتی ہو یا اس میں شرک کا کوئی خدشہ نہ ہو اور اس کے ساتھ مشرکین کے فعل سے مجرد مشابہت کی علت کو بھی شامل کر لیا جائے تو عام حالات میں ذی روح کی تصویر کی گنجائش بالکل ختم ہو جاتی ہے،کیونکہ اللہ کی تخلیق سے مشابہت کی نصوص مطلق وارد ہوئی ہیں یعنی ان میں قدرتِ الٰہی کو چیلنج کرنے اور نہ کرنے والے کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا گیا اور اسی طرح ان میں مجسم /سایہ داریا غیر مجسم / غیرسایہ دار کا فرق کرنے کے بجائے ذی روح اور غیرذی روح کا فرق کیا گیا ہے۔ جیسا کہ چوتھی تعلیل کے ضمن میں احادیث گذر چکی ہیں اور حضرت ِعائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں بھی مجسم اور غیر مجسم کے فرق کی نفی ہوتی ہے،کیونکہ آپ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ میرے پاس تصو یروں والے پردے تھے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں دیکھاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصے