کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 50
کرنے کا قصد رکھتا ہو۔ اگر اس سے مطلق مشابہت مراد لی جائے تو اس پر اعتراض وارد ہوتا ہے کہ کھلونے،کٹی ہوئی تصویر،پاؤں کے نیچے پامال ہونے والی تصاویر اورغیر ذی روح جیسے جمادات درختوں ، ستاروں ، سورج اور چاندکی تصویریں بنانے سے مشابہت کیوں لازم نہیں آتی ؟ لیکن یہ شبہ واعتراض درست نہیں ہے کیونکہ احادیث میں وارد الفاظ کا اِطلاق (غیر مقید ہونا) بعض تصاویرکا استثناء اور ذی روح اور غیر ذی روح کی تقسیم اس شبہ کو رفع کر دیتے ہیں ۔
عام حالات میں تصویر سازی کا حکم
علماے کرام کی مذکورہ توجیہات وتعلیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ تکریم وتعظیم،فیض وبرکت، عبادت وپرستش اور قدرتِ الٰہی کو چیلنج کرنے کی غرض سے تصویریں بنانا بالاتفاق حرام ہے۔ اور ان مقاصد کے لیے تصاویر بنانے والا اَحادیث میں مذکورہ سزاؤں کا مستحق ٹھہرے گا،لیکن اگر مصورکے ذہن میں یہ مقاصد نہ ہوں توبعض علما کے نزدیک تصویر سازی کا حکم جواز کا ہو گا۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ حکم کا دارومدار علت کے وجود اور عدمِ وجود پر ہوتاہے، مثال کے طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب نوشی کے سلسلے میں دس آدمیوں پر لعنت فرمائی ہے۔ جن میں شراب بیچنے اور خریدنے والا بھی شامل ہے ۔(سنن ترمذی:۱۲۹۵)حالانکہ بعض علما کی رائے یہ ہے کہ اس وعید کا مصداق وہ تاجر ہے جو نشہ کی خاطر پینے پلانے کے لیے خرید وفروخت کرتا ہے،لیکن اگر تجارت کا یہ مقصد باقی نہ رہے تو علت کے بدل جانے کی وجہ سے حکم میں بھی تبدیلی واقع ہو جائے گی،مثلاً اگرکوئی تاجر کیمیکل بنانے کے لیے شراب کی تجارت کرتا ہے تو وہ اس لعنت کی وعید کا مصداق نہ ہوگا۔
بالکل اسی طرح تصویر میں بھی بعض استثنائی صورتیں موجود ہیں جہاں حرمت کی تمام علّتیں مفقود ہو جاتی ہیں اور حکم اپنی پہلی حالت پر برقرار نہیں رہتا۔ مثال کے طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کے کھلونے بنانے اور رکھنے کی اجازت دی ہے۔(صحیح ابوداؤد:۴۱۲۳) جو بلا شک ذی اَرواح کے مجسّمے اور تماثیل ہوتی ہیں ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بچپن کے کھلونوں کوبالغ ہونے کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت تک استعمال کیا ہے۔اسی طرح روندی جانے والی اور کٹی ہوئی تصویر کے استعمال کی اجازت بھی اس لیے ہے کہ اس حالت میں ان کی تعظیم کے بجائے اہانت کا پہلو پایا