کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 48
((أولئک قوم إذا مات فیہم العبد الصالح بنوا علی قبرہ مسجدًا وصوّروا فیہ تلک الصور أولئک شرار الخلق عند اﷲ عزوجل))(صحیح بخاری:۴۲۶، صحیح مسلم:۵۲۸)کے تحت فرماتے ہیں کہ’’ نیک آدمی کی قبر پر مسجد بنانے والا(یا اسکی تصویر بنانے والا) اہل کتاب کے ساتھ مشابہت کرنے پر اس نبوی وعید کا مصداق ہے اوریہ اس بات کی صریح دلیل ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ مشابہت کرنا ممنوع ہے۔‘‘(اقتضاء الصراط المستقیم:۱/ ۳۳۵)
اورایک دوسرے مقام پر رقمطراز ہیں کہ’’ کفار کے اعمال اس بات کی علامت اور دلیل ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان اعمال سے منع کیا ہے،جن کا وہ ارتکاب کرتے ہیں ، یا یہ ممانعت کے متقاضی علت ہیں ۔‘‘( ایضاً :۱/۳۳۲)
3. بعض علماء کے نزدیک تصویر کی حرمت کی علت ’نحوست‘ یعنی تصویر والی جگہ میں فرشتوں کا داخل نہ ہوناہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ضمن میں ارشاد فرمایا ہے کہ’’جس گھر میں کتااور تصویر ہو، اس گھر میں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔‘‘(صحیح مسلم:۲۱۰۶)
اس حدیث سے بظاہر یہ علم ہوتاہے کہ تصویر ممنوع ہے اور اس کی وجہ ممانعت فرشتوں کا تصویر والی جگہ میں عدمِ دخول ہے،لیکن بعض علما اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں کہ اس سے حرمت ِتصویر کی تعلیل کرنا کمزور موقف ہے،کیونکہ فرشتوں کا عدمِ دخول تو محض اس کو تعظیم اور احترام سے سجا کر رکھنے کی وجہ سے ہے جو بذاتِ خود ایک قبیح عمل ہے۔چنانچہ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں امام قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ فرشتوں کے عدمِ دخول کا سبب تصاویر کی تعظیم میں کفارسے مشابہت ہے۔(۱۰/۳۹۱،۳۹۲)کیونکہ اِہانت کے انداز میں کاٹ کر یا نیچے پامال کر کے استعمال کرنے یا تصویروں والے بچھونے بنانے کی صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِجازت دی ہے۔ (صحیح بخاری:۵۹۵۴)
علاوہ ازیں اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تصویر کے ساتھ کتے کا ذکربھی کیا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ اس سے ’تمام کتے‘ مراد نہیں ہیں ، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شکاری کتا رکھنے کی خود اجازت دی ہے۔(صحیح بخاری:۱۷۵) ظاہر ہے کہ جس آدمی کے گھر میں شکاری کتاہو گا، وہ فرشتوں کے دخول کے لیے مانع نہیں ہو گا، بالکل اسی طرح تمام تصاویر کا حکم ایک جیسا نہیں