کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 47
جرم کی سزا اتنی سخت اِسی صورت میں ہو سکے گی جب اسے تعظیم اور پرستش کے اِرادے سے بنایا گیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں ہر اس چیز کو توڑ دیتے تھے جس پر صلیب بنی ہوتی تھی،کیونکہ یہ شرک کا مظہر تھی۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حبشہ کے کنیسہ کی تصاویر کا سن کر عیسائیوں کے بارے میں فرمایاتھا کہ یہ قیامت کے دن اللہ کے ہاں بد ترین مخلوق قرار پائیں گے،کیونکہ یہ نیک لوگوں کے فوت ہو جانے کے بعد ان کی قبروں کو عبادت گاہیں بناتے ہیں اور وہاں عبادت کے لیے ان صالحین کی تصاویر رکھتے ہیں ۔ (صحیح بخاری:۴۳۴) ہماری نظر میں تصویر کا یہ جواز اسی صورت میں نکلتا ہے جب حرمت ِتصویر کا سبب صرف سد الذرائع کو قرار دیا جائے،لیکن اگر اس کی دیگر تعلیلات کو بھی ملحوظ رکھا جائے تو مطلقاً جواز ختم ہو جاتا ہے،کیونکہ ان تعلیلات میں سے بعض کافی وزنی ہیں جنہیں نظر انداز کرنا کسی طور پر بھی مناسب نہیں ، جیسا کہ وہ آگے آرہی ہیں ۔ 2. بعض علما کی رائے یہ بھی ہے کہ مشرکین کیونکہ تصاویر اور تماثیل بناتے، بت گھڑتے اور ان کی پرستش کرتے تھے، لہٰذا تصویر سازی میں ان کے فعل سے مشابہت ہے، خواہ مصور کے ذہن میں یہ مقصد اور ارادہ کار فرما نہ بھی ہو یعنی ایک حالت کی دوسری سے محض تشبیہ ہی وجہ ممانعت کافی ہے۔ جیسا کہ ہمیں طلوع اور غروب کے وقت نماز پڑھنے سے روکا گیا ہے تاکہ سورج کے عبادت گزاروں سے مشابہت نہ ہو، جب کہ ضروری نہیں کہ یہ مشابہت نمازپڑھنے والے کے ذہن[1] میں اُس وقت موجود ہو ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مشرکین کے ساتھ مشابہت کو اصل علت قرار دیا ہے۔فرماتے ہیں : ویتأکد المنع بما عُبد من دون اﷲ فإنہ یضاہي صورۃ الأصنام التي ہي الأصل في منع التصویر (فتح الباری:۱۰/۳۹۵) اور علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اُمّ حبیبہ رضی اللہ عنہا اوراُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا کی حبشہ میں کنیسہ والی صحیح بخاری میں مروی حدیث:
[1] جیسا کہ علامہ ابن تیمیہ کے فرمان کا ترجمہ پیچھے گزر چکا ہے: وأکثر الناس قد لا یعلمون أن طلوعہا وغروبہا بین قرني شیطان ولا أن الکفار یسجدون لہا ثم إنہ صلی اللہ علیہ وسلم نہٰی عن الصلوۃ في ہذا الوقت حسمًا لمادۃ المشابہۃ بکل طریق ( اقتضاء الصراط المستقیم :۱؍۲۱۸)