کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 46
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تصویر ساز ی سے منع کیا ہے، اوراس کی علت اللہ کی تخلیق سے مشابہت ذکر کی ہے اور اس پر مزید علت یہ ہے کہ تصویر سازی میں اللہ کے ماسوا کی عبادت ہے۔ چنانچہ آپ نے محض تصویر سازی کو ہی معصیت قرار دیا ہے، پھر اس کی عبادت کرنا کتنا بڑا جرم ہوگا؟‘‘ (تفسیر احکام القرآن: ۴/۱۶۰۰) اسی موقف کی تائید میں امام نووی رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ((إن أشد الناس عذابًا یوم القیامۃ المصورون))کی نبوی صلی اللہ علیہ وسلم وعیدکا مصداق وہ مصور ہے جو عبادت کے لیے تصویر بناتا ہے۔(شرح مسلم از نووی:۱۴/۹۱) یعنی تصویر کی حرمت کا سبب اس کی عبادت کا اِمکان اور شرک کے ذریعے کو روکنا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ حرمت ِتصویر کی تعلیل میں فرماتے ہیں کہ ’’قومِ نوح کے صالحین کے پیروکاروں نے ان کے فوت ہونے کے بعد ان کی تصویریں اور مجسّمے بنائے،لیکن ان کی عبادت نہیں کیا کرتے تھے۔جب وہ پیروکار فوت ہو گئے تو بعد میں آنے والے لوگ ان نیک ہستیوں کے مجسّموں کی عبادت کرنے لگے اور ان کا وسیلہ دے کر بارش طلب کیا کرتے تھے اور یہی مجسّمیجن کی قومِ نوح نے عبادت کی، بعد میں انہیں عربوں نے اپنا لیا اور ان کی عبادت کرنے لگے ۔یہی وہ علت ہے کہ جس کی بنا پرشارع نے تصویر سازی سے منع کیا ہے،کیونکہ اس عمل نے بہت سی اُمتوں کو شرک ِاصغر یا شرکِ اکبر میں مبتلا کر دیاتھا اور یہی دراصل شرک کا مفسدہ ہے جس کو ختم کرنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مقبرے میں مطلق طور پر نماز پڑھنے سے منع فرمایا۔ اگرچہ نماز پڑھنے والا اپنی نماز میں اس جگہ سے برکت کے حصول کا ارادہ نہ بھی رکھتا ہو۔ اوراسی طرح آپ نے طلوع شمس،نصف النہار،اور غروب شمس کے اَوقات میں نماز پڑھنے سے سد ذرائع کے طور پر منع فرمایا،کیونکہ ان اوقات میں مشرکین سورج کی عبادت کرتے تھے۔اگرچہ کسی مسلمان کے ذہن میں غیر اللہ کی عبادت کا مقصد کار فرما نہ بھی ہو۔‘‘ (اقتضاء الصراط المستقیم:۲/۱۹۳) سد ذرائع کی توجیہ کی بنا پر بعض علما نے یہ کہا ہے کہ اگر تصویر سازی شرک کا ذریعہ نہ بنے تو اس میں گنجائش ہو گی کیونکہ تصویر کی حرمت کو مطلق رکھنے کی وجہ سے قواعد ِشریعت سے ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے،اور وہ یہ کہ تصویر بنانا ایک گناہ ہے جو شرک،قتل اور زنا سے بہرحال بڑا نہیں ،لیکن اس کے بارے میں احادیث میں وعید بہت شدید قسم کی وارد ہوئی ہے۔چنانچہ ضروری ہے کہ اس