کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 44
مذاکرۂ علمیہ مولانامحمد شفیق مدنی [1]
حرمت ِتصویر کی وجوہات اوردورِ حاضر میں تبلیغ دین
آج کی مجلس علمی میں زیر بحث مسئلہ یہ ہے کہ کیا علماے کرام جدید میڈیا (ٹی وی، ویڈیو) کو دعوت و تبلیغ کے لیے زیر استعمال لا سکتے ہیں یا نہیں ؟ اور تصویر کی شرعی حیثیت کیا ہے؟کیونکہ یہ کام بظاہر تصویر بنائے بغیر ممکن نظر نہیں آتا…!
تصویر کی حرمت کا مسئلہ مُعَلَّل ہے!
تصویر کے شرعی حکم کے بارے میں یہاں بہت سے علماے کرام نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار فرمایا اور بعض علمانے اس کی حرمت کو منصوص قرار دیتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ اس پر تو بات بھی نہیں کرنی چاہیے۔میں اس بات کی تائید کرتا ہوں کہ بلا حیل وحجت اور بغیر کسی تغیر وتبدل کے نص پر عمل کرنے کی حتیٰ المقدورکوشش کرنابڑی اچھی روش ہے،لیکن یہ بات ملحوظِ خاطر رہے کہ یہ رویہ اُسی وقت مستحسن ہے جب نص کا حکم تعبدی ہو یعنی ایک عبادت کی ادائیگی کے سوا اس کی مشروعیت کی کوئی حکمت وعلت سمجھ میں نہ آئے،کیونکہ ایسی صورت میں کسی کا رائے زنی یا قیاس آرائی کرنا جسارت شمار ہو گی، لیکن اگر کسی نص کا حکم مُعَلَّل ہو یعنی اس کے مقصد اورعلت کا عقل سے اِدراک ہوسکتا ہو تو پھر اس میں یہ گنجائش ہونی چاہیے کہ کوئی صاحب ِ علم وفضل اجتہاد کر سکے اور نص کی تعلیل وتوجیہ اور مفہوم کے تعین کے بارے میں اپنی رائے پیش کر سکے۔ یاد رہے کہ تصویر کیمسئلہ میں بھی اکثر علمانے حکم کو مُعلَّل قرار دیا ہے۔
شرعی نصوص کی تعلیل وتوجیہ کرنے سے دو میں سے ایک فائدہ ضرور حاصل ہوتا ہے:
1. آئندہ پیش آمدہ جدیدمسائل کو اِن نصوص پر قیاس کرنے میں آسانی ہوجاتی ہے۔
2. کتاب وسنت کا متبع شخص پورے اطمینان اور شرحِ صدر سے نصوص پر عمل پیرا ہو سکتا ہے۔
[1] استاذ حدیث وفقہ ، جامعہ لاہور الاسلامیہ [ رحمانیہ ] گارڈن ٹاؤن ، لاہور