کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 42
ہدایت کے مطابق دین کی صحیح رہنمائی مہیا کریں ، اور اُمورِ منصوصہ میں اس قسم کی متساہلانہ رائے دینے سے گریز فرمائیں ۔ دیکھئے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت منصوص ہے، اور جن لوگوں نے اس میں گنجائش نکالنے کے لئے اس پر ہاتھ ڈالا، ان کا حشر کیا ہوا، وہ سب کے سامنے ہے۔ جاندار کی تصویر کی ممانعت بھی امر منصوص ہے، جس کے بنانے کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصور یعنی فوٹوگرافر پر لعنت کی ہے۔ (صحیح بخاری: ۵۹۶۲) لہٰذا اس کے جواز کا فتویٰ دینے سے انتہائی احتیاط کرنا چاہئے، البتہ بعض استثنائی صورتیں ہیں جن کی اضطرار کی وجہ سے اجازت دی جاتی ہے جیسے کرنسی نوٹوں اور شناختی کارڈز کی تصویروں کو بامر مجبوری برداشت کرنا پڑتا ہے اور اس میں ہماری رضا و رغبت کو دخل نہیں ہے۔
رہے اُمورِ اجتہادیہ جو شارع کی طرف سے منصوص نہیں توان میں ایک مجتہد کی رائے دوسرے مجتہد سے مختلف ہوسکتی ہے اور دوسرا مفتی دلیل کے ساتھ پہلے مفتی سے اختلاف کرسکتا ہے۔
تبلیغ کی خاطر ٹی وی پروگراموں میں شرکت
اب رہی دوسری بات کہ تبلیغ دین کی خاطر علماء دین کا ٹی وی پروگراموں میں شرکت کرنا، تو اس میں کوئی قباحت نہیں ۔ آپ قرآن و حدیث کی دعوت عوام تک پہنچانے کے لئے ٹی وی پروگرام میں حاضر ہوں تو اسے گوارا کیا جاسکتاہے، ورنہ فتنہ بازعناصر لوگوں کو راہِ حق سے بھٹکانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اس کے سد ِباب کے طور پر، خالص قرآن و حدیث کی تعلیمات کو لوگوں میں پھیلانے کے لئے جدید وسائل سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
اگر یہ سوال اُٹھایا جائے کہ فوٹو اور تصویر کو ممنوع سمجھنے والا ٹی وی پروگراموں میں شرکت کیسے کرسکتا ہے تو اس کے جواز کی مثال یوں سمجھئے جیسے کوئی ڈاکٹر، مریض عورت کے علاج کے ارادے سے اس کا چیک اَپ کرسکتا ہے، اس کی زبان یا آنکھوں کا مشاہدہ کرتا ہے، یا آپریشن کی غرض سے مریضہ کے مستور اعضاء کو مس کرتا یادیکھتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ، علاج جیسی اہم ضرورت کے لئے شریعت اس کی اجازت دیتی ہے۔ اسی طرح بے دین یا دین اسلام سے غافل لوگوں تک حق کی آواز پہنچانے کے لئے جدید ذرائع پر دعوت و تبلیغ کا کام کیا جاسکتا ہے، اور ایسی تصویر کشی میں آپ کا ذاتی کوئی دخل نہیں ہوتا کہ آپ نے تصویر کو جائز