کتاب: محدث شمارہ 321 - صفحہ 41
تصویریں بنا لیا کر جو بے جان ہیں ۔‘‘ اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : سمعتُ النبي! یقول: ((إن أشد الناس عذابا عند اﷲ یوم القیامۃ المصوِّرون)) (صحیح بخاری: ۵۹۵۰) ’’میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے ہاں سخت ترین عذاب فوٹو گرافروں کو ہوگا۔‘‘ یہ وعید توفوٹو بنانے والوں کے متعلق ہے اور فوٹو بنوانے والوں کو اللہ تعالیٰ نے یہ فرما کر تنبیہ کردی: ﴿وَلاَ تَعَاوَنُوْا عَلی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوْا اﷲَ﴾ (المائدۃ:۲) ’’ گناہ اور زیادتی کے کاموں پر کسی سے تعاون مت کرو۔‘‘ اگر کہا جائے کہ کیمرے اور وڈیو کی تصویر اس نہی اور ممانعت میں داخل نہیں ہے تو اس کے لئے اہل زبان کی طرف رجوع کیا جائے گا کہ وہ کیمرے کی تصویر کا نام کیا رکھتے ہیں ؟ اور حقیقت یہ ہے کہ وہ اسے تصویر اور اس کے بنانے والے کو ’مصور‘ ہی کہتے ہیں ۔ تصویر بنانے والا خواہ کیمرے سے بنائے یا ہاتھ سے، دونوں اس ممانعت میں داخل ہیں ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن ایسی تصویریں بنانے والوں سے کہا جائے گا کہ ان میں روح بھی ڈالو اور وہ ڈال نہیں سکے گا۔ (صحیح بخاری: ۵۹۶۳) یوں وہ عذابِ الٰہی سے بچ نہیں سکے گا۔ الغرض جہاں تک تصویر کی شرعی حیثیت کی بات ہے تو جس چیز کے بارہ میں نص شرعی آجائے، وہاں تاویلیں کرکے اصل نص کو توڑ مروڑ دینا کسی اُمتی کو زیب نہیں دیتا۔ ٭ یاد رہے کہ اُمور شرعیہ دو قسم پرہیں : 1. اُمورِ منصوصہ 2. اُمورِ اجتہادیہ علماے کرام اس چیز کی قطعاً اجازت نہیں دیتے کہ منصوص اُمور میں دخل دیا جائے اور ان کی تاویلیں کرکے ان کو معاشرے کی روش کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی جائے۔ اگر ہم منصوص اَقوال و اعمال کو تاویلات کی بھینٹ چڑھا کر اُنہیں لوگوں کی خواہشات کے مطابق بدلنے کی کوشش شروع کردیں تو یہ طرزِ عمل اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کے منافی ہے بلکہ یہ کمزور ایمان کی علامت ہے۔ کیونکہ ہمیں لوگوں کو شریعت ِاسلامیہ کے پیچھے چلانا ہے، اس کے برعکس شریعت کو لوگوں کے پیچھے نہیں چلانا ۔ علماے کرام کو چاہئے کہ وہ لوگوں کو اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کی